پاکستان میں بھارت کے سکول 

بچپن میں ایک کہانی جو تمام نصاب کی کتب میں تقریباً شامل تھی جس میں ایک زمیندار اپنے جھگڑالو بچوں سے بہت تنگ تھا اور ایک دن انہیں سبق سکھانے کے لئے اس نے لکڑیوں کے گٹھے منگوائے اور انہیں توڑنے کے لئے کہا ، سب بہادر ہونے کے باوجود ان کو نا توڑ سکے مگر جب ان گٹھوں کو کھول دیا گیا تو سب نے خوشی خوشی تمام لکڑیوں کو آسانی سے توڑ دیا۔ اس کہانی کا اصل مقصد پڑھنے والے بچوں کو اتحاد میں قوت کی اہمیت سمجھانا تھا۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑا درس تھا اور ہے بھی جو کہ ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے، مگر افسوس کہ جو سبق ہم بچوں کو پڑھا رہے تھے وہ خود ماننے کو تیار نا تھے، سب بڑے اپنی اپنی دوڑ میں بھاگے جا رہے تھے اور ایک دوسرے کو چت کرنے کی لگن میں صرف اپنی انفرادی کامیابی کی لگن میں سب کے سب ڈوبتے گئے اور کچھ مفاد پرست ایسے حالات کا فائدہ اٹھا کر ان کے سروں پر چڑھ کے ناچنے لگے۔
یہی کچھ اُمت مسلمہ کے ساتھ بھی ہوا، جب تک ان میں اتحاد تھا، یہ ایک بڑی ملتِ اسلامیہ کے باشندے تھے ، تب امریکہ یورپ کسی کی جرأت نا تھی کہ مسلمان ملکوں کے کسی ایک فرد کی طرف کوئی برے ارادے سے دیکھے حتیٰ کہ غیر اسلامی ممالک میں رہنے والے مسلمان بھی پوری آب و تاب اور شان کے ساتھ رہتے تھے۔ پھر کچھ لالچی اور دولت کے پجاری محلاتی سازشوں کے ذریعے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے اور امتِ مسلمہ بکھرتی چلی گئی۔ جس ملت اسلامیہ کے سامنے فرانسیسی اور انگلستانی حکمران اپنی آنکھیں نا اُٹھاتے تھے آج اس ملت اسلامیہ کی بیٹیوں پر یہ وقت آن پڑا ہے کہ بھارت کے مختلف صوبوں میں انہیں بے پردہ کرنے کی مہم جاری ہے اور تعلیم کے لئے بے پردگی کی شرط لازم قرار دی جا رہی ہے ۔مگر مجھے نا تو موت پڑی اور نہ ہی کچھ ہوا ۔ بس اتنا لگا کہ ہمارے قائد اعظم نے ہمارے لئے بہت بہتر اور بہت آگے کا سوچا تھا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہم پاکستان میں بس رہے ہیں کہ جہاں ہمیں ہماری مذہبی آزادی حاصل ہے ، اسی اثنا میں سوشل میڈیا پر کرناٹکا میں ہندوتوا کے لبادے میں لپٹے ہجوم کے سامنے ایک نوجوان لڑکی کو اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے دیکھا ۔ جس پر پوری دنیا میں بھارت کا مکروہ چہرہ بری طرح بے نقاب ہو گیا اورپورے پاکستان اور امت مسلمہ کے لئے درد رکھنے والے ہر ذی شعور انسان نے باقاعدہ طور پر اس پرجوش اور باہمت لڑکی کی ہمت کو سراہا اور اس کے نعرے کا بھرپور جواب بھی دیا۔ موت تو جناب اس وقت پڑی جب میں نے اس واقعے پر ہٹ دھرمی دکھانے والے ایک نوجوان ہندو کی کلاس لی کہ وہ اپنا ہندتوا کا پرچار نا کرے اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا حصہ نا بنے اور وہاں بسنے والے مسلمانوں کو آزادی سے ان کے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے دے ۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ایک پل کے لئے ٹیپو سلطان کی روح مجھ میں سرایت کر گئی ہو اور اگلے چند لمحوں میں شاید میں ان بھارتی مظالم کو یونہی بے نقاب کر کے ان کو مجبور کر دوں گا کہ وہ اپنے ظلم و ستم ترک کر دیں مگر اسی لمحے کچھ بھارتی جوانوں نے مجھے ویڈیو لنکس کمینٹ میں بھیجے کہ جس میں کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اپنے ملک کی ایک لڑکی کالج کے فنکشن میں پورے ہجوم کے سامنے انتہائی بیہودہ ڈانس کر رہی تھی ، یہ ویڈیو پورے ملک میں بہت وائرل ہے اور لوگ بہت ذوق شوق سے اسے دیکھ اور حسب توفیق آگے بھیج رہے ہیںاور باقی کلپس میں تو بات اس سے بھی کہیں آگے بڑھ گئی، اپنی تو سمجھیں غیرت کا جنازہ ہی نکال دیا۔ میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں ہم لوگ مسلسل فیل ہوتے جارہے ہیں مگر دوسرے ممالک میں ہمیں اسلامی نظام چاہیے۔ بھارت میں کفر کے علمبرداروں کے سامنے نعرہ حق بلند کرنے والی مسکان تو بلاشبہ تعریف کے قابل ہے اور دعا ہے کہ اللہ اس کے اس عمل کے صدقے ہمارے مرے ہوئے ضمیر کو جگانے میں مدد فرمائے۔ کل میرے واٹس ایپ کے آدھے سے زائد دوستوں نے مسکان کی تصویر کو نا صرف شیئر کیا ہوا تھا بلکہ اپنے پروفائل پر بھی لگا کر اس کا ساتھ دینے کی کوشش کی مگر کیا ہم میں کسی نے غورکیا کہ جو مسکان وہاں کرنا چاہ رہی ہے وہ ہم یہاں اپنے ملک میں بہت حد تک کھو چکے ہیں۔ محترم وزیراعظم صاحب تعلیمی درسگاہوں میں قرآن کی تعلیم کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کو یہ غیر ضروری فعل لگتا ہے ، انہیںبچوں پر ایک غیر ضروری بوجھ لگتا ہے اور انہیں آج بالکل نظر نہیں آرہا کہ ہماری نوجوان نسل کس سمت جا رہی ہے ۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج پاکستان میں ایسے پردے کا نظام لازم کر دیا جائے جو بھارت میں موجود مظلوم بچیاں اپنے لئے مانگ رہی ہیں تو پاکستانیوں کی اکثریت کو سانپ سونگھ جائے گا۔میں تو پہلے بھی یہ کہتا اور لکھتا آیاہوں کہ پاکستان میں موجود کالجو ںاور جامعات میں چاہے وہ سرکاری ہوں یا نجی ان سب میں ایک جیسا لباس رکھا جائے اور تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر ہونیوالی معاشرے اور مذہبی اقدار سے متصادم سرگرمیوں کی سختی سے روک تھام کی جائے۔ بصورت دیگر کچھ سالوں میں ہمارے لئے ان اقوام کے سامنے خو دکو مسلمان کہنا بھی محال ہو جائے گا یا پھر ہماری اگلی نسلیں شاید مذہب سے بہت دور صرف نام کی مسلمان رہ جائیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے معززین سے گزارش ہے کہ براہ  مہربانی اپنی ذات اور مرضی کے نام پر اس کی بنیادوں میں بے حیائی کے بیج بونے کی اجازت کسی کو نا دیں۔کہیں ایسا نا ہو کہ کل یہاں بھی کسی مسکان کو اپنے پردے کے لئے یونہی نعرہ حق بلند کرنا پڑے۔ یہ درسگاہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ہیں انہیں اس طرح بدنام ہونے سے بچائیںاور انہیں اس ریاست مدینہ کے اصولوں پر استوار کریں اور اس قابل بنائیں کہ ہم بحیثیت مسلمان ان پر رشک کر سکیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...