اب تو معاملہ چائے کے کپ میں طوفان اٹھنے سے کچھ آگے کا ہی نظر آرہا ہے اور شاید ’’حالات میکدے کے کروٹ بدل رہے ہیں۔‘‘ مجھے محض قیافوں اور قیاس آرائیوں کی بنیاد پر کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنے کا ہرگز شوق نہیں۔ حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے بھی میری کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی زیربحث موضوع پر تجزیاتی قلم آرائی کرتے وقت اپنی ذاتی خواہشات کو اپنی تحریر پر اثرانداز نہ ہونے دوں۔ مگر اب تو سیاسی منظرنامے پر وہم و گمان سے آگے یقین کی منزلیں خود حکمران طبقات کے اعلانات و اقدامات اور ایک سے ایک بڑھ کر دیئے جانیوالے بیانات کے ذریعے طے ہوتی نظر آرہی ہیں۔
ارے صاحب! کچھ تو ہے جس کی اب پردہ داری بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھی جارہی۔ وزیراعظم عمران خان خود اپنے بیانات کے ذریعے ایسے اشارے دیتے نظر آرہے ہیں کہ خوش فہموںکے ساتھ ساتھ بدخواہوں کی باچھیں کھلنے کا بھی اہتمام ہو رہا ہے۔ انہوں نے عوام کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں اقتدار سے نکلنے کی صورت میں اپنے زیادہ خطرناک ہونے کا عندیہ دیکر حکومت کے چل چلائو کے بارے میں ہونیوالی قیاس آرائیوں کو خود تقویت پہنچائی جس کے بعد بدخواہوں کی زبانیں بھلا کیسے رک سکتی تھیں، سو سلسلہ چل نکلا۔ اسکے بعد بھی عمران خان صاحب نے اگلے تین ماہ کو اپنی حکومت کیلئے اہم قرار دیکر قیاس آرائیوں کو خود ہی مہمیز لگائی۔ پھر انہوں نے ’’چوروں‘ ڈاکوئوں‘‘ کیخلاف مقدمات میں فوری انصاف مہیا نہ کرنے پر عدلیہ کو ملفوف انداز میں رگیدتے ہوئے اپنے اقتدار کے بارے میں زیرگردش قیاس آرائیوں کو آگے بڑھانے کی فضا ہموار کی اور انکی کابینہ کے ارکان ’’موراوور‘‘ کا تڑکا لگا کر قیاس آرائیوں کو مزید تقویت پہنچاتے نظر آئے۔
اگر شیخ رشید احمد اگلے پچاس دن قومی سیاست کیلئے اہم قرار دے رہے ہوں اور فواد چودھری حکومتی مخالفین کو تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے اکسا رہے ہوں اور اسی دوران وزیراعظم کے انتہائی قریب شمار ہوتے سینیٹر فیصل واوڈا پاکستان الیکشن کمیشن کے محفوظ ہوئے فیصلہ کے جاری ہونے پر تاحیات نااہل قرار پا جائیں تو کسی گیم پلان کی کڑیاں سرعت کے ساتھ ایک دوسری کے ساتھ ملتی ہی نظر آئیں گی۔ ایسی کسی گیم پلان کے عملی قالب میں ڈھلنے کے دو ممکنہ نتائج ہی اخذ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ایک نتیجہ اپوزیشن جماعتوں کی باہم متحد ہو کر قومی یا پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کی صورت میں سامنے آسکتا ہے جس کیلئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادتیں اپوزیشن کے الگ الگ پلیٹ فارموں پر ہونے کے باوجود باہم مشاورت بھی کر چکی ہیں اور اب حکومتی اتحادیوں مسلم لیگ (ق)‘ ایم کیو ایم‘ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) اور فنگشنل لیگ کی حمایت حاصل ہونے کے دعوے بھی کر رہی ہیں جس کا عندیہ ان حکومتی اتحادیوں کے تحفظات اور اپوزیشن قیادتوں کے ساتھ انکے روابط سے بھی مل رہا ہے اور فواد چودھری نے یہ بڑھک بھی لگا دی ہے کہ عمران خان سے الگ ہونیوالے حکومتی اتحادی قومی سیاست میں صفر ہو جائیں گے اس لئے ممکنہ گیم پلان کا یہ نتیجہ سامنے آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔
دوسرا ممکنہ نتیجہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ترپ کا پتہ چلتے ہوئے اسمبلیاں توڑنے کی صورت میں سامنے آسکتا ہے جس کے واضح اشارے حکومتی اکابرین کی طرف سے ہی مل رہے ہیں۔ یہ نتیجہ قبل ازوقت عام انتخابات کی عکاسی کر رہا ہے تاہم میری دانست میں اس موقع پر نہ اپوزیشن کیلئے عدم اعتماد کی تحریک سود مند ہو سکتی ہے اور نہ ہی اسمبلیاں توڑنا عمران خان صاحب کیلئے مثبت نتائج کا حامل ہوگا۔ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہائوس کے اندر سے تبدیلی لائے گی تو نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے معاہدے کی بنیاد پر موجودہ حکومت کی جانب سے عوام پر ڈالا گیا مہنگائی کا سارا بوجھ خود اٹھانا اور اس بوجھ سمیت آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جانا ہوگا۔ میری دانست میں اپوزیشن اس قیمت پر عدم اعتماد کی تحریک لانے کی ہرگز غلطی نہیں کریگی۔ اسی طرح عمران خان صاحب موجودہ صورتحال میں جبکہ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے حکومت کا سیاپا کررہے ہیں‘ اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کرانے کا رسک لینے کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ اس موقع پر بپھرے عوام کا سامنا کرنا انکے ہاتھوں اپنی سیاست کو ملیامیٹ کرانے کے مترادف ہوگا۔
ممکن ہے میری اس رائے کے برعکس سب کچھ ایسا ہی ہو جائے جس کیلئے فضا گرم اور ہموار ہو رہی ہے۔ تبدیلی کے شوق میں بھلا نتائج کی پرواہ کب کی جاتی ہے۔ اس کیلئے مجھے دوربین دانشور‘ سینئر صحافی اور تعلقداری نبھانے والی معتبر شخصیت حاجی محمد نواز رضا کے احوال واقعی پر مشتمل تجزیہ پر صاد کرنا پڑیگا جن کے سیاسی تجزیوں پر مبنی کتاب ’’رودادِ سیاست‘‘ کا دوسرا حصہ بھی شائع ہو کر منظرعام پر آچکا ہے اور اب وہ اس کتاب کے تیسرے حصے کی اشاعت کی بھی تیاریوں میں ہیں۔ اس کتاب کے ناشر قلم فائونڈیشن والے علامہ عبدالستار عاصم بہت جہاندیدہ پبلشر ہیں جو کتب بینی سے عاری ہوتے اس ماحول میں بھی کتابیں فروخت کرنے کے فن میں خاصے مشاق ہیں۔ انہیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کس موضوع پر کون سے مصنف کی کتاب کسی بھی ماحول میں آسانی سے ہاتھوں ہاتھ فروخت کی جاسکتی ہے اس لئے ان کا حاجی نواز رضا کی ’’رودادِ سیاست‘‘ یکے بعد دیگرے منظرعام پر لانا ہی ہمارے اس دانشور دوست کی قومی سیاست کے اسرارورموز سے آشنائی اور انکی رائے کے معتبر ہونے کا بین ثبوت ہے۔ ’’رودادِ سیاست‘‘ کے سینکڑوں صفحات کی زینت بننے والے حاجی نواز رضا کے تمام کالم انکی اشاعت سے بھی پہلے نہ صرف میری نظر سے گزرے ہوئے ہیں بلکہ میں نے ان کالموں کے ذریعے قومی سیاست میں رونما ہونیوالے تغیر و تبدل کا بھی پہلے سے مشاہدہ کیا ہوا ہے۔ قومی سیاست کے ممکنہ نتائج کا جائزہ لینے کیلئے حاجی نواز رضا کی حیثیت بلاشبہ ایک بیرومیٹر کی ہے اس لئے میں نے انکی تحریریں پڑھ کر اور انکے یوٹیوب چینل پر انکی جانب سے کئے جانیوالے تبصرے سن کر پوری سہولت کے ساتھ موجودہ حالات کا یہ نتیجہ اخذ کرلیا ہے کہ ہر دو فریقین ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کا شوق ضرور پورا کرتے رہیں گے مگر تحریک عدم اعتماد یا اسمبلیاں توڑنے کا رسک ہرگز نہیں لیں گے۔ کل کیا ہوتا ہے‘ اس کیلئے بس منتظر ہی رہیے۔