ولی دکنی کی کا اسلوب اور شاعری 

کلیات ولی میں تقریبا تمام اصناف سخن پر مشتمل کلام ملتا ہے لیکن جس صنف نے انھیں شہرت عام و بقائے دوام بخشی وہ غزل ہے۔ کلیات میں غزل ہی کا حصہ زیادہ بھی ہے اور وقیع بھی۔ ادب میں مختلف اصناف، مخصوص تہذ یبی، سماجی اور ذہنی اثرات کے تحت قبولیت اور شہرت حاصل کرتی ہیں۔ غزل بھی خاص تہذیبی حالات میں پیدا ہوئی لیکن اس صنف نے وقت کی تبدیلی کے ساتھ خود کو بھی بدل لیا شاید اس نے سب سے زیادہ سیاسی، سماجی، تہذیبی اور انقلابات دیکھے۔ جہاں جیسی ضرورت ہوئی ویسی شکل اس نے اپنائی۔ داخلیت کا اظہار ہوا تو دل سے نکلی اور دل میں اتر گئی، خارجیت کا چلن ہوا تو سارے بندھن توڑ ڈالے۔ سماجی اور تہذیبی تبدیلی کے ساتھ وقت کے تقاضوں کو پورا کر نے کے لیے غزل اپنے دامن کو وسیع کرتی گئی مختلف مضامین اس میں جگہ پاتے گئے، فلسفیانہ مضامین کو بھی جگہ ملی، صوفیانہ خیالات بھی آلام روزگار اور فکر معاش بھی، زندگی کا شکوہ بھی اور شادمانی کا ذکر بھی، موضوعات کی اس رنگا رنگی اور طرز ادا کے اس نشیب و فراز کے باوجود غزل کا موضوع بنیادی طور پر عشق و محبت ہی رہا۔ ولی کی غزلوں میں ہمیں مندرجہ بالا تمام رنگ کہیں گہرے اور کہیں مدھم نظر آتے ہیں۔ ولی ایک بلند پایہ غزل گو شاعر تھے۔ ان کی عظمت کا اعتراف کئی بڑے شاعروں نے کیا ہے۔ انہوں نے چاند کی چاندنی اور آفتاب کی حسرت انگیز دھوپ، سپرنیلگوں کی دلکش و وسعت اور صبح و شام کے دلاویز حسن کا تماشائی بننا اور ان سے حواس ظاہر و باطن کو مسرور بنانا سیکھا اور سکھایا ہے۔ ولی کی شاعری میں حسن و جمال کا موضوع بڑا اہم ہے، شاعر ولی سے پہلے کسی شاعر نے حسن و جمال کا بھرپور اور کامیاب تصور نہیں دیا، ان کی حسن پرستی میں سرمستی وارفتگی کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کی حسن پرستی میں سرمستی اور سرخوشی کار نگ نمایاں محسوس ہوتا ہے۔ وہ حسن کے ایک تجربے کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ جس سے ان کی روح اور جسم میں سرمستی کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ خود کو اس تجربے کے محسوسات میں گم کردینا چاہتے ہیں۔ ان کی حسن پرستی صحت مندانہ انداز کی ہے۔ وہ حسن کے احساس سے روح کی بالیدگی اور من کا سرور حاصل کرتے ہیں۔ولی حسن و جمال کے شعری تجربات بیان کرتے ہوئے کسی غم یا دکھ کا اظہار نہیں کرتے کیونکہ وہ جمال دوست ہیں۔ اس لیے کائنات کی ہر شے میں جمال دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر زندگی اور کائنات کے تاریک پہلوئوں کو نہیں دیکھتی۔ وہ صرف روشن پہلوئوں کا نظارہ کرتی ہے۔ جہاں خوشی، امید اور مسرت کی سدا بہار چھائوں ہے۔ وہ حسن سے مایوس ہو کر آہیں بھی بھرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ بامراد عاشق ہیں اور محبوب کے حسن کا دیدار انہیں حاصل ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی اور کائنات کا حسن بھی نظر آتا ہے۔ ولی حسن کے حوالے سے ایسی فضاء قائم کرتے ہیں جہاں ہر طرف پھول ہی پھول اور وسیع سبزہ زار ہیں۔ شفاف اور ٹھنڈا پانی ہے۔ پرندے چہچہا رہے ہیں، چاندنی کھلی ہوئی ہے، دور تک میدان اور راہ چاندنی میں نہائی ہوئی ہیں۔ پوری کائنات مسکراتی معلوم ہوتی ہے۔ جیسے فطرت کا تمام تر حسن ولی کے بیان میں سمٹ آیا ہے۔  
ولی کی شاعری میں سراپا نگاری بدرجہ اتم موجود ہے۔ ولی نے اپنی شاعری میں جس محبوب کی خلیق کی ہے۔ انہوں نے واقعیت اور تخیل کی مدد سے اپنے محبوب کے حسن کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کی ہے۔ ان کے اشعار سے محبوب کی خوبصورت تصویریں بنتی ہیں۔ اسی لیے ولی کو اردو ادب کا سب سے بڑا سراپا نگار شاعر مانا جاتا ہے۔ ان کے لئے محبوب کے مکھ میں سب سے زیادہ دلکشی ہے۔ یہ مکھ حسن کا دریا ہے۔ اس کی جھلک سے آفتاب شرمندہ و بے تاب ہے۔ اور اس کا مکھ صفحہ رخسار، صفحہ ء قرآں ہے۔ اس کے بعد درجہ بدرجہ آنکھ اور لب، خال اور خد غرض سراپائے جسم کی تعریف و توصیف بہت عمدہ پیرائے میں بیان کی ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار دیکھیں کہ محبوب کے مختلف اعضائے جسمانی کا کتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے:
وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا
خوبی میں گل رخاں سوں ممتاز ہے سراپا
اے ولی دل کو آب کرتی ہے
نگہ چشمِ سرمگیں کی ادا
موج ِ دریا کوں دیکھنے مت جا
دیکھ تو زلفِ عنبریں کی ادا
ولی کی شاعری پڑھتے ہوئے اس کے ایک محبوب کا تصور بھی ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس کا کوئی نام بھی نہیں۔ ولی اسے مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ کبھی‘‘ساجن’’کہتا ہے اور کبھی‘‘پیتم’’تو کبھی‘‘لالن’’کہا ہے۔ جبکہ کبھی‘‘من موہن’’کبھی محشرِ ناز و ادا کا خطاب دیتا ہے۔ کبھی‘‘فتنہ رنگیں ادا’’کا نام۔ غزل چونکہ معاملات ِ مہر و محبت اور وارداتِ عشق و عاشقی کی داستان ہے۔ اس راہ کے مسافر کو قدم قدم پر ہجر و فراق کی تلخیاں سہنا پڑتی ہیں۔ کتنی رکاوٹیں عبور کرنا پڑتی ہیں۔ جی جی کر مرنا اور مر مر کر جینا پڑتا ہے۔ اس لیے ان واردات و تجربات کے بیان میں سوز و گداز کا عنصر لازمی طور پر شامل ہوتا ہے۔ ولی کی غزلوں میں سوز و گداز یقینا موجود ہے مگر اس کی کیفیات میر کے سوز و گداز سے مختلف ہیں۔ اسی لیے میر کے ہاں سوز و گداز کی شدت ہے جبکہ ولی کے ہاں اس کے برعکس سوز و گداز میں بھی ان کا احساس جمال کارفرما محسوس ہوتا ہے۔ولی ایک ذہین شاعر تھے۔ جنہوں نے مروجہ اظہار کے سانچوں کے جائزے کے بعد اپنی شعری بصیرت کی مدد سے اس بات کو محسوس کر لیا تھا کہ  مروجہ زبان اعلی شاعرانہ خیالات کے اظہار کے قابل نہیں چنانچہ انہوں نے خود زبان کے سانچوں کو مرتب کیا۔ ولی کی زبان ان سے پہلے غزل گو شاعروں سے قطعی طور پر مختلف محسوس ہوتی ہے۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے اس تبدیلی کا نمایاں احساس ہوتا ہے۔ یہ زبان مقامی ہندی اور فارسی الفاظ کا ایک خوبصورت آمیزہ ہے۔ اس طرح ان کی زبان میں سلاست و شگفتگی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔
شاعری کے بہائو کو تیز کرنے اور ترنم کی لہروں کو بلند کرنے کے لئے ولی چھوٹی اور لمبی بحروں کو استعمال کرتے۔ اور غنائیت و موسیقی کا وہ جادو جگاتے ہیں کہ ان کی فن کاری پر ایمان لانا پڑتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن