یورپی نظام سے کچھ تو سیکھئے 

Feb 11, 2022

امریکی ریاست بوسٹن میں اس نے فلیٹ کرائے پر لیا جب گھر کا سامان شفٹ کر دیا تو شام کو پتہ چلا کہ باتھ روم کا پائپ خراب ہے نعیم غازی نے فلیٹ کے مالک فون کیا اور بتایا اس نے صبح آنے کا وعدہ کیا صبح دو آدمی آئے بظاہر شکل سے باپ بیٹا محسوس ہو رہے تھے اور سینٹری کا سامان اٹھایا ہوا تھا وہ آپ باتھ روم کے پائپ کو درست کرنے لگے تقریباً ایک گھنٹے میں درست کر دیا انہوں نے معذرت کی اجازت لی اور چلے گئے اور ان کا بڑا بھائی بھی وہاں موجود تھا جس نے نعیم سے پوچھا کہ یہ کیا کرنے آئے تھے نعیم نے بتایا فلیٹ کا مالک ہے اور باتھ روم کا خراب پائپ درست کرنے آئے تھے یہ جو آدمی درست کرکے گیا ہے اسے جانتے ہو ؟ نعیم نے نفی میں سر ہلایا تو اسکے بھائی نے بتایا کہ یہ اس شہر کا مئیر ہے اور ساتھ اس کا بیٹا یہ انکشاف سن کر نعیم کے اوسان خطا ہوگئے ۔کیا ہمارے ہاں اسکا تصور بھی کیا جاسکتا ہے۔اس میں کیا شک رہ گیا ہے کہ یہاں کوئی بھی لیڈر عوام کی اکثریت کے اعتماد پر پورا نہ اتر سکا ۔ 75 سالوں کا حساب لگائیں تو کوئی ایک منصوبہ بھی کامیاب نہ ہو سکا اگر ہوا بھی تو قائم نہ رہ سکا یا اپنی کامیابی برقرار نہ رکھ سکا۔ آج تمام پارٹیوں کے منشور کو دیکھیں تو ہر کوئی اپنے آپ کو ہی مسیحا اور انقلابی ثابت کرتا نظر آئے گا۔ ایسا لامتناہی سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا ۔ آج بھی اگر آپ غور فرمائیں جدید ٹیکنالوجی نے ہر چیز عیاں کردی مگر ہم نے ہر صورتحال کا توڑ نکال لیا۔کیا ہمارے حالات حکمران بدلیں گے ادارے بدلیں گے یا عوام خود بدلیں گے یا آسمان سے کوئی ایسی مخلوق اُترے گی جو ہمارے معاملات سنبھال لے گی ۔کیا ان مہذب معاشروں نے یہ حالات نہیں دیکھے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں ۔یورپ نے کتنی دفعہ تباہی دیکھی مگر انہوں نے سبق حاصل کیا تھک گئے پھر سر جوڑ کر بیٹھے کہ کہ ایسے تو ہم کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے ۔بہترین نصاب ترتیب دئیے گئے ،اداروں کی اصلاح کی سخت قوانین بنائے گئے، اشرافیہ کو مجبور کیا گیا کہ انہیں تسلیم کریں اور عہدوں کی کشش ختم کی گئی۔ اختیارات کا بے جا استعمال روک دیا گیا۔ ہر شخص ایک دوسرے کے تعاون پر مجبور کر دیا گیا ۔جھوٹ، سفارش، اقربا پروری اور کرپشن کو ایک لعنت بنا دیا گیا ٹریفک کا بہترین نظام متعارف کروایا گیا آج وہاں کے حکمرانوں کے چالان ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ ٹریفک کے مسائل پر تو ان عربوں نے بھی قابو پالیا جن سے توقع نہ تھی عربوں میں بھی آپ رشوت سفارش یا کرپشن کا تصور نہیں کر سکتے یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے ۔کبھی آپ نے سنا ہے کہ ہر آنے والی حکومت بیوروکریسی یا دیگر انتظامی عہدوں میں اس طرح اکھاڑ بچھاڑ کرتی ہو جیسا ہمارے ہاں ہوتا ہے یعنی کوئی افسر بھی اپنے آپکو پکا سمجھ کر سیٹ پر نہیں بیٹھتا کیا خبر کس لمحے تبادلے یا تنزلی کا پروانہ آجائے ، اب بھلا دیرپا منصوبے وہ کیسے بنائے گا اگر کوئی پچھلا بنا کر گیا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اسی منصوبے کی وجہ سے تو اسکا تبادلہ یا تنزلی ہوئی ہے وہ کیونکر اسے جاری رکھے گا۔کبھی غور کیا ہے کتنا خوفناک نقصان ہوتا ہے۔ 
اس حکومت نے آتے ہی ایسی بڑھکیں ماریں کہ ہماری بیوروکریسی نے کام چھوڑ دیا بڑے منصوبے چھوڑیں چھوٹے چھوٹے منصوبے بھی ترک کر دئیے، لگتا تو ہمیں ہے کہ ابھی تک اعتماد بحال نہیں ہوا ہے ۔ ایک افسر کو ایک منصوبے کی تکمیل کیلئے پورے ضلع کے حکومتی اراکین اور سیاستدانوں کا اعتماد حاصل کرنا پڑتا ہے کسی ایک کی بھی سوئی پھنس گئی تو منصوبہ لٹک گیا ۔کیا ایسا کہیں اور ، کسی ملک میں ہوتا ہے ۔ کھربوں کے منصوبے سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے ابھی منصوبہ شروع ہی نہیں ہوا ہوتا کاغذات میں ہی ہوتا ہے اسکی کرپشن اقربائ￿  پروری کی داستانیں شروع ہوجاتی ہیں۔ آخر میں احتساب کے ادارے اس منصوبے کا کچا چٹھہ کھول رہے ہوتے ہیں ، مقدمات درج ہوتے ہیں جلوسوں کی شکل میں پیشیاں ہورہی ہوتی ہیں قوم کی سہولت کیلئے ساری کاروائی لائیو دکھائی جارہی ہوتی ہے۔ پیشی کے بعد پرہجوم پریس کانفرس میں کیس کی ساری کارروائی جانبداری پر مبنی بیان کی جارہی ہوتی ہے اور ملزمان پھر بری کردئیے جاتے ہیں۔
کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ احتساب پر ہمارا کتنا خرچہ آتا ہے سال کے آخر میں صدر مملکت کو ایک رپورٹ پیش کی جاتی ہے جو سر بہ مہر ہوتی ہے ۔ پچھتر سالوں سے ہر آنے جانے والوں کا احتساب ہی ہوتا ہے۔ اب تک سب ایک دوسرے کا احتساب کر چکے ہیں جو کوئی بات سناتا ہے اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور ایسی امیدیں باندھ لیتے ہیں جو آسمانی طاقتیں بھی حل نہیں کرسکتیں۔ بظاہر ہم ایک سراب میں کھو چکے ہیں۔ایسا ہرگز نہیں کہ اسکا کوئی حل نہیں دنیا میں ہر صورتحال کا حل ہے ہمیں اپنے اداروں کی اصلاح کرنی ہوگی۔پورے ریوڑ کو ایک چرواہا ہی کنٹرول کر رہا ہوتاہے ہمیں الیکشن کمیشن کو غیر جانبدار اور مضبوط خود مختار بنانا ہوگا ہمیں الیکشن کو سستا کرنا ہوگا تا کہ عام آدمی بھی اسمبلیوں تک رسائی حاصل کر سکے ہمیں عہدوں کی کشش پروٹوکول کو ختم کرنا ہوگا ہمیں بہترین سڑکیں ٹریفک کا نظام بنانا ہوگا یہ سب کچھ ایک دم سے نہیں ہو سکتا مگر ناممکن بھی نہیں قومیں فیصلہ کرتی ہیں پھر یقین کے ساتھ اس پر کاربند رہتی ہیں جب نناوے فیصد قانون کی پاسداری کر رہے ہوں گے تو ایک کو ضرور شرم آئے گی اور وہ بھی کرنے لگ جائے گا مگر جب نناوے فیصد قانون کا مذاق اڑا رہے ہوں گے تو ایک کیسے پیروی کرے گا۔

مزیدخبریں