ماضی قریب میں امریکی خبررساں ایجنسی اے پی نے خبر دی تھی کہ ایروزینا کے ایک ایسے کلب سے جہاں شرکاء کی تفریح کے لیے بعض لڑکیاں یکے بعد دیگرے کرتب دکھاتی ہیں وہاں سے برتن صاف کرنے والی ایک چودہ سالہ لڑکی کو جب پولیس نے اپنی تحویل میں لیا تو وہ لڑکی کے اس انکشاف پر حیران رہ گئی جس کے مطابق لڑکی کے خانہ بدوش والدین اس دوشیزہ کو دو بار مبلغ گیارہ ہزار ڈالروں کے عوض فروخت کر چکے تھے۔ اگر چہ لڑکی کو پانچ دن حراست میں رکھنے کے بعد رہا کرتے ہوئے پولیس نے اسے اسکی والدہ کی تحویل میں دے دیا اور بظاہر اس کے خلاف لگائے گئے الزامات بھی نرم ک دیئے مگر لڑکی کا بیان کئی ایک سوالات اٹھا گیا ہے ۔ واضع رہے کہ ایروزینا میں کسی خاندان کا اپنی اولاد کو فروخت کرنا قانونی طور پر ناجائز نہیں سمجھا جاتا اور اگرچہ کیلی فورنیا جیسی ریاست میں فروخت شد ہ لڑکی کی گواہی کے مطابق اس کے والدین یہ مکر وہ سودا دوبار کرچکے ہیں۔ اور وہاں کسی کو فروخت کرنا غیر قانونی فعل بھی شمار ہوتا ہے مگر پولیس کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتی کہ کوئی جرم سر زد ہوا ہے ظاہر ہے کہ پولیس کا موقف بھی یہی ہوگا کہ چونکہ خانہ بدوش والدین نے اپنی بیٹی کو مذکورہ بالا تینوں بار منشیات کی روشنی میں فروخت کیا تھا لہذا یہ کوئی جرم نہیں۔ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں انسانی حقوق کی نگہداشت کرنے اور ان کے علمبردار بننے والے بعض مغربی ممالک میں اس طرح کے جو دوسرے معیارات نظر آتے ہیں ان کے حوالے سے یورپ یا امریکہ کے خانہ بدوش ہمارے ہاں کے گدھوں گھوڑوں پر نگر نگر گھومنے والے خانہ بدوش نہیں کہ جن کے پاس اپنی کٹیا تعمیر کرنے کا مناسب انتظام بھی نہیں ہوتا بلکہ وہاں ان لوگوں نے بڑی بڑی ویگنوں ٹرکوں اور دیگر بڑی آرام دہ گاڑیوں کو ہی کچھ اس طرح ترتیب دیا ہوتا ہے کہ وہ متحرک گھروں کی تمام سہولیات سے آراستہ ہوتی ہیں اور یہ جپسی جہاں چاہتے ہیں وہاں کی مقامی آبادی کو فراہم کی گئی ۔ گیس‘ پانی ‘ بجلی کی سہولتوں ک کنکشن کے پوچھے بغیرلے کر ہفتہ عشرہ یا حسب خواہش زیادہ رک کر گزارتے اور پھر آگے چل پڑے۔ ان معاشروں میں نوجوان لڑکیوں کے بارے اجنبی جوڑے سے ملازمت کا تصور تو عام دیکھا تھا جس کے مطابق دنیا دیکھنے یا نگر نگر کی سی کی شوقین لڑکیاں اکثر چودہ پندرہ سال کی عمر میں گھروں سے نکل پڑتی ہیں اورکسی بھی اجنبی شہر یا جگہ کسی انجانے خاندان میں گھریلو کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹانے کی شرائط پر ان کے ہاں رہنا شروع کر دیتی ہیں جس کے بدلے متعلقہ خاندان ایسے اجنبی جوڑوں کوکوئی نقد ادائیگی تو نہیں کرتا ہاں ان کی رہائش اور کھانے پینے کی ذمہ داری قبول کرلیتا ہے پرنگیزی نسل کی ایک ایسی لڑکی سے جب ہم نے پوچھا کہ اس سے اسے کوئی خوف یا دیگر مشکلات کا خدشہ نہیں ہوتا تو اس کا کہنا تھا کہ اس میں خوف اور مشکلات کے بجائے فوائد ہی فوائد ہیں کہ بغیر زیادہ خرچہ کئے اپ دنیا بھر کی سیر کرلیتے ہیں رہائش اور خوراک کی بھی چنداں فکر نہیں رہتی اور اس کے بدلے میں محض آپ کو کسی خاندان کے ہاں برتن صاف کرنے کپڑے دھونے یا دیگر چھوٹے موٹے گھریلو کام میں ہاتھ ہی تو بٹانا ہوتا ہے نیز مختلف اقوام کے معاشرتی رویوں کو دیکھنے ان کی زبان سیکھنے اور سماجی ہم آہنگی اختیار کرنے کے بھی نادر تجربات ہوتے ہیں۔
بہرحال یہ تصور تو ان معاشروں میں عام دیکھا اور سنا تھا مگر یہ کہ اپنی اولاد کو محض وقتی فائدے اور مالی منفعت کے لئے کئی کئی بار فروخت کر نا یقیناً بدنما فعل ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور ایسے تمام افعال سرزد کرنے کے باوجود بھی یہ اقوام تو ترقی یافتہ ہی کہلاتی ہیں اور اگر کسی غریب اور پسماندہ ملک میں معاشی بدحالی کے ستائے ہوئے والدین اپنے چودہ پندرہ سالہ لڑکوں سے بھی اپنے آبائی پیشوں یا روزمرہ کے معمولات میں مدد لیں تو ایسے بچوں سے جبری مشقت شمار کرتے ہوئے ایسے مملک کے خلاف طرح طرح کی پابندیاں لگائی جاتی ہیں غالباً ایسے رجحانات کے لیے ہی شاید اقبال نے کہا تھا ۔
بے کاری وعریانی ومے خواری وافلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
یہ علم‘ یہ حکمت ‘ یہ تدبر‘ یہ حکومت
پیتے ہیں لہو‘ دیتے ہیں تعلیم مساوات
یورپ میں بہت روشنی علم وہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات