غلام ہندوستان میں گرفتاریاں دے کرجیل جانے کا چلن آزادی کے متوالوں میں پایا جاتا تھا۔مگر میں نے سب سے پہلی جیل بھروتحریک جنرل ایوب خاں کے زمانے میں دیکھی ۔یہ تحریک یااس قسم کی دیگر تحریکیں زیادہ ترلاہور کراچی اور راولپنڈی میں چلیں۔لاہور میں جامع مسجد شیرانوالہ گیٹ سے مولانا عبیداللہ انور اپنے مریدین کوایوبی آمریت کے خلاف صف آراءکرتے اور وہ نعرہ ہائے تکبیر اورجمہوریت زندہ باد کے نعروں کی گونج میں اپنی گرفتاریاں پیش کرتے ۔لاہور میں ہائی کورٹ بار اس کا بڑامرکز رہی ۔ایک واقع ان دنوں اکثر سننے کوملتا کہ کچھ اشخاص مال روڈ پر ہائی کورٹ کی عمارت کے قریب ایوب خاں کے خلاف نعرہ زن تھے۔گرفتاریاں دینے کاان کوئی پروگرام نہیں تھا کیونکہ گرفتاریاں پیش کرنے والے کارکن ابھی سڑک کے اس پارکھڑے تھے۔پولیس نے رضاکارانہ طورپرگرفتاریاں پیش کرنے والوں کی بجائے ان لوگوں کوگرفتارکرنا چاہا تووہ دیوار پھلانگ کرہائی کورٹ کے اندر چلے گئے جہاں جسٹس شیخ شوکت ایک عدالت سے فارغ ہوکرگھر جانے والے تھے کہ کارکنوں نے انہیں صورت حال سے آگاہ کیا ۔شیخ شوکت صاحب نے ان سب کی ضمانتوں کے احکامات ان کی ہتھیلیوں پر تحریر کردیئے اوریوں وہ باہر آکرگرفتاری سے بچ گئے ۔ کتنے جگر دار اور انسانی حقوق کے رکھوالے جج ہواکرتے تھے تب۔ لاہور میں تیسرا بڑا سیاسی مرکز جس نے ایوب خاں کے خلاف گرفتاریاں پیش کرنے میں،بڑاکرداراداکیا،4فین روڈ پر میاں محمود علی قصوری کا بنگلہ تھا۔میاں صاحب کا تعلق تب نیشنل عوامی پارٹی سے تھا۔
ملک بھر سے ان کی جماعت اوردیگر سیاسی کارکن ہمہ وقت وہاں دستیاب ہوتے اورخود میاں صاحب سیاسی اختلاف کے باوجود ہر کارکن کے لئے دستیاب ہوتے، چاہے انہیں ایک درجہ سوئم کے مجسٹریٹ کی عدالت میں اورکسی دورداراز شہر بھی جانا پڑتا۔مزنگ اڈے کے قریب "کسان ہال"بھی ایک بڑا سیاسی مرکزتھا۔جو نیشنل عوامی پارٹی کے رانا مقبول صاحب کی ملکیت تھا۔رانا صاحب 2000ءکے اوائل میں تحریک استقلال میں شامل ہوگئے۔وفات کے بعدان کے بیٹے رانا ضیاءعبدالرحمان لاہور ہائی کورٹ بارکے صدر منتخب ہوئے ۔کسان ہال میں سیاسی وفکری مباحث بلا تفریق بپا ہوتے ۔جنرل ایوب خاں کے بعد یحییٰ خاں مارشل لاءکے خلاف مغربی پاکستان میں کوئی خاص تحریک چلی اورنہ سیاسی جماعتوں نے گرفتاریاں پیش کیں۔ 1970ءکی دہائی میں دائیں بازو کی جماعتوں خاص طورپر جماعت اسلامی نے یحییٰ خاں کی حمائت کرکے بڑا غیرسیاسی وغیر اخلاقی کام کیا۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے "محبت کا زمزم بہہ رہا ہے “ لکھ کر عام لوگوں ،ترقی پسندوں ،مزدوروں ،کسانوں اوردیگر محب وطن لوگوں کویحییٰ خاں کے خلاف تحریک چلانے کا موقع ہی نہ دیا۔مشرقی پاکستان ٹوٹا اوریحییٰ خاں بھی رخصت ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے سول مارشل لار ایڈمنسٹریٹراور صدر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا۔ان کا دوربڑا ہنگامہ خیز رہا۔منفی اور مثبت پہلو ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔آئین بھی بنا اور اس سے اگلے روز سارے ملک میں مستقل طورپر دفعہ 144بھی نافذکردی گئی ۔ایٹم بم کی بنیاد بھی رکھی گئی اورسیاسی راہنماﺅں پر "ٹارچربم"بھی چلائے گئے ۔
ملک کو وفاق کا درجہ بھی دیا گیااور سندھ میں کوٹہ سٹسم نافذ کرکے اس کی نفی بھی کی گئی۔قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیاگیا تو دوسری طرف مخالف بولنے والوں کی زبانیں بھی بند کی گئیں۔ ملائیت کا جن البتہ ان کے دورمیں بوتل سے باہر نکلا جس نے بالآخران کی جان لے لی ۔بہر حال یہ تھا کہ سیاست کے میدان میں رونق لگی رہتی تھی ۔دائیں اوربائیں بازو کی کشاکش بھی عروج پر رہی ۔سیاسی گہماگہمی باالخصوص تحریک استقلال کے جلسے جلوسوں میں ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی فورس"فیڈرل سیکورٹی فورس"(FSF) کی طبع آزمائی جلسوں اورتحریک کے کارکنوں کورسواءکرتی رہی ۔ان کے خلاف عوامی طورپر طاقتور جدوجہد تحریک استقلال نے ہی کی تاہم دیگر جماعتیں بھی کبھی کبھار اپنا شوق پورا کرلیتیں تاکہ ان کا نام رہے۔ اس سلسلے میںبھٹو کے خلاف سب سے پہلے 1973ءمیں لاہور سے گرفتاریاں پیش کی گئیں۔مسلم لیگ ہاﺅس ڈیوس روڈ اورمال روڈ سے دی جانے والی ان گرفتاریوں کا انتظام چوہدری ظہورالہی اور غلام حیدروائیں کیاکرتے ۔ہمارے دوست حافظ محمود اور بوریوالہ سے لاہور آئے ادریس جانباز نے گرفتاریاں پیش کیں ۔سیاست کے میدان میں بڑی رنگارنگی، ہماہمی ،جوش وجذبہ اور طنطنہ وولولہ تھا کہ اچانک ایک روز ذوالفقار علی بھٹو نے 1976ءکے اواخر میں غیر متوقع طورپر قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان کردیا۔
ان کے خیال میں تاش کے پتوں کی طرح بکھری اپوزیشن ،بزعم خود پیپلز پارٹی کی مقبولیت اوران کے کارنامے اس امر کاجواز تھے کہ دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کیلئے اس سے بہتر قدم اوروقت کچھ اورنہیں ہوسکتا تھا۔مگر جونہی انہوں نے انتخابات کااعلان کیااپوزیشن کی سیاسی جماعتوں میں برقی لہر دوڑ گئی اورصرف دس دن کے اندراندر"پاکستان قومی اتحاد"کے نام سے تمام سیاسی جماعتوں نے ان کے خلاف ایک متحدہ انتخابی محاذ قائم کرلیا۔ 9سیاسی جماعتوں ،تحریک استقلال ،مسلم لیگ ،نیشنل عوامی پارٹی ،جماعت اسلامی ،جمعیتہ علماءاسلام ،جمعیتہ علماءپاکستان ،مسلم کانفرنس،شیعہ محاذ اور خاکسار تحریک پر مشتمل یہ اتحاد آندھی کی طرح اٹھا،برق کی طرح لہرایا ،رعدکی طرح گونجااورایک بھونچال بن کر پورے ملک میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک ۔ کھیتوں اورکھلیانوںسے لےکرفیکڑیوں اور کارخانوں تک ۔سڑکوں اور بازاروں سے لے کر مسجدوںا ورمدرسوں تک ایسا چھایا کہ اس کا ثانی اس سے قبل کوئی نہ تھااورنہ ہی اس کے بعد تاحال کوئی ہوا ہے۔پس تحریر:۔دوسرا حصہ اگلے ہفتے کے روز ملاحظہ فرمائیں۔
جیل بھرو تحریک‘ تاریخ کے جھروکوں سے
Feb 11, 2023