ڈاکٹر سعدیہ بشیر
چوزے ڈر ڈر کر تھک چکے تھے۔چوزوں کا خیال تھا کہ مرغی نے اپنے پروں میں چھپا چھپا کر انھیں خوف کی چادر اوڑھا دی تھی۔جس کی وجہ سے وہ چھپے رہتے تھے۔ رنگوں نے ان کے دماغ کو تقویت بخشی تھی۔ نیلے پیلے زرد ، آتشی رنگوں کی چمک نے خوف کو چھپا رکھا تھا۔ اب چوزے فضا میں اڑنے والی چڑیوں کو دیکھتے اور ان کا موازنہ جسامت کی بنیاد پر کرتے۔ چڑیوں کے بھی پر تھے اور چوزوں کے بھی۔ایک چونچ ، دو آنکھیں ، دو ٹانگیں پنجوں والی۔ بظاہر تو کوئی فرق نہ تھا۔سوائے اس کے کہ چوزے تھوڑا پھولے پھولے محسوس ہوتے تھے۔چوں چوں کا مقابلہ ککڑوں کوں سے کیا جا سکتا تھا۔
وزن کا مسئلہ ہی نہیں تھا۔تھوڑی کمی بیشی کو چوزے ڈائٹنگ سے پورا کر سکتے تھے۔کئی چوزوں نے تو جم gym بھی جوائن کر لیا تھا۔آنندی کی طرز پہ Neutritionist کی دکانیں بھی کھل گئی تھیں۔ ملٹی وٹامن کے کیپسولز ہر چوزے کو مفت ملتے تھے۔چوزوں کو یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ انھیں صبح ، دوپہر اور شام میں کون سے کیڑے اور دانہ کھانا ہے۔ مکئی اور گندم کے ساتھ بہت سی دالیں وٹامن سے بھی مہنگی ہو چکی تھیں۔یوٹیلٹی سٹورز پر طویل قطاروں میں کھڑے رہنے سے چوزوں کے پر جھڑنے لگے تھے۔چوزے اب صرف زمین پر گرے دانے ہی کھا سکتے تھے۔ اب تو دانے گرنا بھی بند ہو گئے تھے۔صرف روپے کی قیمت تھی جو مسلسل گرتی جا رہی تھی۔صرف انسان تھا جس کی اڑان ، وہ بھی زمین پر مدھم نہیں پڑ رہی تھی۔ اخلاق کس چڑیا کا نام تھا وہ کب کی اڑ چکی تھی۔کئی بار چوزوں نے سوچا کہ کاش وہ کبوتر ہوتے تو جال سمیت اڑ سکتے تھے لیکن یہ نہ تھی ہماری قسمت ۔ جال بھی تو اب سلامت نہیں رہا تھا۔جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا۔ دریدہ دامنی ، تر دامنی پہ غالب آ چکی تھی۔کبوتر اڑنے سے پیشتر جال کے سوراخوں میں گرفتار ہو چکے تھے۔ اور طوطے اڑنا کس کو کہتے ہیں۔ جال کی یہ کہانی بہت پرانی ہے۔لیکن اب کی بار یہ جال مکڑی کا جالا تھا جس سے نکلنا دشوار تھا۔ہر جالے میں مکھی گرفتار تھی اور در کے ہوتے ہوئے بھی اڑ نہیں سکتی تھی۔جالے سوچ و فکر سے لپٹے تھے اور جال میں گرفتار پرندے کوکتے پھر رہے تھے۔ چہکنے اور کوکنے میں نمی اور اشکوں کا فرق تھا۔ عجیب انبار بے خود تھا۔ کچھ علم نہ تھا تصویر کہاں کی ہے اور رنگ کہاں کے۔ آلو سبز تھے تو سیب نیلے ، زمین بھی خاکی نہ تھی لہو سے تر خشک بنجر تھی۔ چوزے سہمے بیٹھے تھے۔ ان کی آواز گم ہو چکی تھی۔ چڑیاں اور کبوتر انھیں لبھاتے ضرور تھے لیکن ان کی زندگیاں بھی بے رنگ تھیں۔ محض اڑنے سے وہ بادشاہ نہیں بن سکتے تھے۔ ہر طرف نادہدہ جال تھے جو واپسی کا رستہ دیتے تھے نا آگے بڑھنے کا۔
چوزوں کو جس خضر کی تلاش تھی۔وہ ملتا ہی نہ تھا۔ اس پر بھی شاید انصاف کا ٹھپہ لگ چکا تھا۔ ہما سر پہ بیٹھ نہیں سکتا تھا ، اس کے پروں پر انصاف اکیڈمی کھل رہی تھی۔آرزو تھی کہ کوئی پیر زندگی بھر کی پونجی لے کر پروں کی کم ہمتی، سستی، کاہلی اور بے عملی کے غبارے میں گیسی ہوا بھر دے تاکہ اڑان بھرنے کی کوشش سے بھی نجات مل جائے۔ کراماتی شعبدہ بازیوں کے دشت میں سرگراں پیر و مغنی ہر بار ایک نیا بہانہ ، نئی ڈیمانڈ تراشتے ہیں۔ چوزوں کے ہاں بھی کاریگری کا فن پروان چڑھ رہا تھا۔لیکن چوزے نہ ہیرو تھے نہ ولن۔ وہ بس بے دست و پا اڑنے کی خواہش لیے تھے۔ان کی صدا بانگ نہیں تھے۔بس پنجے تھے جو کم زور تھے۔ کوئی جھوٹ یا وعدہ خلافی انھیں بجھنے نہیں دیتی تھی۔چوزوں کو خون دے کر ٹمٹمانے کی عادت پڑ چکی تھی۔ وہ سب کچھ داو پر لگا چکے تھے۔اپنی کم زوری ، بے بسی اور بے چارگی کا ہر بار ایک نیا جواز تراشتے۔اور دانا دنگا چگنے لگتے۔اڑان بھرنے کا شوق ان کے دل سے جاتا رہا تھا۔اب وہ دائرے کی زندگی جینے لگے تھے۔ ڈربے سے باہر ان کی دلچسپی کا سامان ہی نہ رہا تھا۔وہ جال کی محبت میں گرفتار تھے۔ اس جال کو مقامی طور پر گْجو کہتے ہیں.جس میں گرفتاری اور آزادی ایک ہی بات تھی۔ پھندا یا دام تو مجازاََ کہا جاتا ہے۔لیکن چوزے تو اسے آزادی ہی کہتے تھے۔ پد ماوت کٹنی کی چال کو سمجھ جاتی ہے اور اس کے جال میں پھسنے سے عین موقع ہر بال بال بچ جاتی ہے۔ لیکن چوزے صرف چوزے تھے۔خوف کی چادر اوڑھے رکھنے والے چوزے۔۔ وہ ہیرو تھے نہ ولن۔ بس چگنے والی مشینیں تھیں۔چگے جا رہی تھیں۔
چوہے بلی کے کھیل کی روایت پرانی ہو چکی تھی۔ وقت نئے کھیل کا متقاضی تھا۔ چوزے سہمے کھڑے ہیں اور آسمان پر گدھوں کے قافلے بڑھنے لگے ہیں۔ موت زندگی کے تعاقب میں ہے اور زندگی موت سے بھاگنے پر مجبور ہے۔ نجانے کب قضا و قفس کا کھیل شروع ہو اور گدھوں کی ٹولیاں اپنے نوکیلے ناخنوں سے چوزوں کو تار تار کر دیں۔ فلم ابھی کچھ سال سینما گھروں میں نمائش کے لیے چلتی رہے گی۔