لاہور (نوائے وقت رپورٹ+ سپیشل رپورٹر) لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمشن کو 90 روز کی آئینی مدت میں پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم جاری کردیا۔ جسٹس جواد حسن نے 16 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ الیکشن کمشن گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد فوری تاریخ کا اعلان کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر الیکشن ہوں۔ گورنر کے دستخط کے بغیر اسمبلی خود تحلیل ہو تو اس صورت میں آئین نے کسی اتھارٹی کو تاریخ دینے کا پابند نہیں کیا۔ خود مختار آئینی ادارہ ہونے کی حیثیت سے الیکشن کمیشن قانون کے مطابق الیکشن کرانے اور الیکشن کے انتظامات کرانے کا پابند ہے، آئین کا آرٹیکل 220 وفاقی اور صوبائی اداروں کو الیکشن کمیشن کی معاونت کا پابند کرتا ہے، آئین کی روشنی میں الیکشن کمیشن قانون کے مطابق الیکشن کا انعقاد کرائے۔ واضح رہے کہ درخواست گزاروں نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ نہ دینے کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا، جسٹس جواد حسن نے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ دوران سماعت آئی جی پنجاب نے موقف اختیار کیا تھا کہ انتخابات سے متعلق جو الیکشن کمشن کا فیصلہ ہوگا ہم اس پر عملدرآمد کریں گے جبکہ چیف سیکرٹری پنجاب نے آگاہ کیا تھا کہ ہم آئین کے آرٹیکل 220 پر عملدرآمد کے پابند ہیں عدالت اور الیکشن کمشن جو بھی فیصلہ کرے ہم اس پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے الیکشن بروقت کروانے سے معذوری ظاہر کردی تھی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کا موقف تھا کہ تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے، عدلیہ ،چیف سیکرٹری، فنانس سب نے افسر اور فنڈز دینے سے معذرت کرلی ہے الیکشن کمیشن ایسے حالات میں کیسے الیکشن کروا سکتا ہے۔ ہمیں الیکشن کرانے کے لیے 14 ارب روپے کی ضرورت ہے، قانون میں الیکشن کی تاریخ مؤخر ہو سکتی ہے۔ گورنر کے وکیل نے دلائل میں کہا اگر اسمبلی خودبخود تحلیل ہوتی ہے تو گورنر انتخابات کی تاریخ دینے کا پابند نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے وکیل نے کہا آئین میں واضح درج ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد نوے روز میں الیکشن ہوں گے ، صدر بھی الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں، عدالت حکم دے گی تو صدر تاریخ دے دیں گے۔