پرویز مشرف اور پاکستان 

Feb 11, 2023

علی انوار


دنیا ایک فانی جگہ ہے۔ یہاں کسی کو دوام نہیں ہے۔ جو ذی روح دنیا میں آیا ہے اس نے یہاں سے جانا ہے۔ باقی رہنے والی صرف اللہ تعالی کی ذات مبارکہ ہے اور انسان کے جانے کے بعد اگر اس سے منسوب کسی چیز نے یہاں رہنا ہے تووہ اس کے اعمال اور افعال ہیں جو باقی رہتے ہیں جن کی بنیاد پر اس کا اگلے جہاں میں معاملہ اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ پاکستان کے سابق صدر آرمی چیف جنرل پرویز مشرف بھی گزشتہ دنوں اس جہاں فانی سے طویل علالت کے بعد دبئی میں چل بسے جنہیں بعد ازاں پاکستان کے شہر کراچی میں ملٹری قبرستان میں پورے سرکاری اعزاز و اکرام کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ان کے جنازہ میں جہاں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے شرکت کی وہیں موجودہ جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف جنرل ساحر شمشاد مرزا نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت جنازے میں شرکت کی۔ جنرل پرویز مشرف نے جہاں اچھے کام کئے وہاں ان پر آئین کو کالعدم قرا ر دینے کی وجہ سے تنقید بھی کی جاتی ہے۔ ان کی وفات کے مواقع پر بھی پاکستان دو حصوں میں تقسیم نظر آیا کچھ لوگ ان کی تعریف کرتے رہے اور کچھ لوگ انہیں آئین شکن کے نام سے یاد کرتے رہے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس میں سابق صدر پرویز مشرف کی دعائے مغفرت پر بھی ہنگامہ کھڑا کیا گیا اور دیکھا گیا کہ پرویز مشرف کے انتقال پر فاتحہ خوانی پر ایوان تقسیم ہو گیا۔ حکومتی اراکین کی جانب سے پرویز مشرف کے لیے دعا کی مخالفت کی گئی اور دنیا سے چلے جانے والے ایک مسلمان کی بے توقیری کرنے کی کوشش کی گئی۔جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق کو دعا کے لیے کہا گیا تاہم انہوں نے معذرت کر لی۔قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم نے پرویز مشرف کے لیے فاتحہ خوانی پر اصرار کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم معاشرتی طور پر کس قدر گر چکے ہیں،ایک مرحوم کے لیے دعائے مغفرت نہیں کی جا رہی۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی یہ دو جماعتیں این آر او لے چکی ہیں۔کالی پٹیاں باندھ کر جب حلف اٹھایا تب وہ ٹھیک تھا۔دوسری جانب پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مولانا بخش چانڈیو نے سینیٹ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے خود مشرف کو مرنے کے لیے باہر چھوڑ دیا تھا،آج ان کے لیے دعاو¿ں کی بات کر رہے ہیں۔جو آئین توڑنے والے کی حمایت کرے گا وہ خود بھی آئین توڑنے کی بات کرتا ہے،جو آئین توڑتا ہے وہ غدار ہے ۔میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ لازمی نہیں انسان ہر ایک کو خوش کر کے ہی دنیا سے جائے ۔کچھ لوگ مخالف بھی ہوتے ہیں جو آپ سے ناراض ہوتے ہیں۔ جہاں تک جماعت اسلامی کے سینیٹر کی جانب سے مشرف کی دعائے مغفرت کرنے سے انکار کا معاملہ ہے، وہ اخلاقی طور پر شاید درست ہو لیکن شرعی طور پر یہ عمل درست نہیں ہے۔ کیوں کہ ایک مسلمان جو دنیا سے چلا جاتا ہے پھر اس کا معاملہ اللہ کے ہاں ہے اور اگر اللہ چاہے تو اس کے پہاڑ جیسے گناہ معاف کر دے اور نہ چاہے تو کسی چھوٹی سی غلطی پر بھی پکڑ ہو سکتی ہے۔ جو لوگ آج آئین کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں وہ ماضی میں اسی پرویز مشرف سے این آر او لے چکے ہیں۔ پھر موجودہ حکومتی اتحاد جو پرویز مشرف کی مغفرت کی دعا کرنے سے انکاری تھا اسی میں موجود کچھ رہنما پرویز مشرف کے ساتھی بھی رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو پرویز مشرف کے ساتھی تھے جنہیں بعد میں مسلم لیگ ن نے گلے لگا کر پارٹی میں شامل کیا۔ تو کیا جب وہ لوگ دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے متعلق بھی یہی رویہ اپنایا جائے گا کیوں کہ وہ بھی تو ایک ڈکٹیٹر کے ساتھی رہے ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کا پرویز مشرف کے ساتھ تعلق تھا اور سب سے بڑھ کر پرویز مشرف ہی صدر تھے جب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے وزراءنے ان کے سامنے حلف اٹھایا تھا۔ پرویز مشرف کے کارناموں پر نظر دوڑائیں تو آج جو ہمیں ملک میں آزاد میڈیا نظر آتا ہے تو یہ ان کے دور کاہی کارنامہ ہے کہ انہوں نے پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا کو پاکستان میں پنپنے کا موقع فراہم کیا۔ پھر انہوں نے معیشت کو 9سال تک سنبھالے رکھا(موجودہ جمہوری دور کی طرح تب حالات اتنے خراب نہ تھے)۔ بھارت سے مذاکرات میں انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کو مقدم رکھا اور بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔اگر ہم ان کے کیریئر پر نظر دوڑائیں تو 11 اگست 1943 کو دہلی میں پیدا ہونے والے پرویز مشرف کراچی کے سینٹ پیٹرک ہائی اسکول میں پڑھے، بعد میں ایف سی کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔پرویز مشرف نے 1961 میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور اسپیشل سروسز گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی حصہ لیا۔کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی اور رائل کالج اور ڈیفنس اسٹڈیز برطانیہ سے بھی کورسز کیے۔اکتوبر 1998 میں انہوں نے پاک آرمی کی کمان سنبھالی اور اس کے بعد کیسے وہ اقتدار میں آئیے اور ملک کی خدمت کی وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ کون اچھا کون برا ہے یہ ہمیں تاریخ پر چھوڑ دینا چاہئے کہ آنے والی نسل خود ہی جان لے گی کہ پاکستان کے مفاد کیلئے کس نے کام کیا، ہمیں از خود جنت دوزخ کے ٹکٹ بانٹے سے گریز کرنا چاہئے۔

مزیدخبریں