آپ میرے بندوں سے فرمادیجئے کہ وہ ایسی بات کیا کریں جو بہتر ہو(اس میں کسی کی دل آزاری نہ ہوتی ہو) کیونکہ شیطان دل آزار بات کی وجہ سے آپس میں تنازعہ کروادیتا ہے۔واقعی شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔(بنی اسرائیل : ۵۳)
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی یہ صفت ارشادفرمائی ہے ”وہ لوگ بے کار لایعنی باتوں سے اعراض کرتے ہیں“ (مومنون:۳) اوروہ بے ہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے،اگر اتفاق سے کسی بے ہودہ مجلس کے پاس سے گزریں تو سنجیدگی اور شرافت کے ساتھ گزرتے ہیں۔(الفرقان:۷۲)اورجب وہ کوئی لغو بات سنتے ہیں تواس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔(القصص:۵۵)
انسان جو کوئی لفظ بھی زبان سے نکالتا ہے تواس کے پاس ایک فرشتہ انتظار میں بیٹھا ہے (جو اسے فوراًتحریر کرلیتا ہے۔ (ق:۱۸)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :”کسی شخص کے اسلام کی خوبی اورکمال یہ ہے کہ وہ فضول کاموں اورباتوں کو چھوڑدے۔(ترمذی)
حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوںںے رسول اللہ ﷺسے گزارش کی کہ وہ مجھے ایسی کوئی بات بتادیں جسے میں مضبوطی سے تھامے رہوںآپ نے اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا اسکواپنے قابو میں رکھو۔(طبرانی اورمجمع الزوائد) حضرت ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے اپنے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کون سا ہے سب خاموش رہے کسی نے جواب نہ دیاتو آپ نے ارشاد فرمایا:سب سے زیادہ پسندیدہ عمل زبان کی حفاظت کرنا ہے۔ (بیہقی)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میںنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں عرض کی یارسول اللہ !نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے۔آپ نے ارشادفرمایا:اپنی زبان کو قابو میں رکھو،اپنے گھر میں رہو،(بلا ضرورت باہر نہ گھومو پھر و)اوراپنے گناہوں پر آنسو بہایا کرو۔(ترمذی)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :بندہ جب تک اپنی زبان کی حفاظت نہ کرے وہ ایمان کی حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے جسم کے تمام اعضاءزبان سے کہتے ہیں کہ تو ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خوف کرکیونکہ ہمارا معاملہ تجھ سے ہی وابستہ ہے اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بے ٹیڑھے ہوجائیں گے۔(ترمذی)