وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ وسائل ملنے پر نوجوان ملکی تقدیر بدل سکتے ہیں۔
وزیراعظم نے پی ایم یوتھ لون سکیم کی کارکردگی اور کام کی رفتار کو جانچنے کیلئے سٹیئرنگ کمیٹی کا قیام عمل میں لاتے ہوئے 30 جون 2023ءتک پی ایم یوتھ لون سکیم کے ذریعے 30 ارب روپے تک قرضوں کی فراہمی کے ہدف کو پورا کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے ‘ اس سے کچھ تو نوجوان نسل میں پائی جانیوالی مایوسی دور ہوگی لیکن نوجوانوں کو یہ وسائل حقیقی معنوں میں ملنے بھی چاہئیں‘ تب ہی تو وہ ملکی تقدیر بدل پائیں گے۔مگر فی الحال تو وسائل نہ ملنے پر وہ اپنی تقدیر بدلنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔ آئین کے مطابق ملک کے شہریوں کو بنیادی ضروریات اور وسائل فراہم کرنا ریاست کی ہی ذمہ داری ہے۔ فی الحال تو گزشتہ کئی سالوں سے زبانی جمع خرچ سے ہی کام لیا جا رہا ہے۔ ایسے دعوے تو پی ٹی آئی نے بھی کئے تھے کہ وہ نوجوانوں کو کروڑوں نوکریاں دیگی مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ بھی ان سابقین میں شامل ہو گئی جو نوجوانوں کو محض نوکریاں اور وسائل دینے کے دعویدار تھے۔ لہٰذا اب حکمران طبقات عوام کو مطمئن کرنے کیلئے کوئی نیا طریقہ ایجاد کرلیں کیونکہ روٹی کپڑا اور مکان‘ احساس پروگرام‘ اپنا گھر‘ آشیانہ سکیم وغیرہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے، کسی پر بھی عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آیا۔ اب عوام ان دعوﺅں کے جھانسے میں نہیں آئینگے۔
موجودہ اتحادی حکومت بھی مہنگائی کے خاتمہ کا دعویٰ لے کر اقتدار میں آئی تھی مگر کیا کیا‘ اس نے تو غریب کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھیننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمران طبقات نے اپنے رویوں، جھوٹے دعوﺅں اورعوام مخالف پالیسیوں سے خود ہی عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ انکے دعوے محض لالی پاپ ہوتے ہیں‘ ان پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال وزیراعظم کی طرف سے یوتھ لون سکیم سٹیئرنگ کمیٹی قائم کرنا خوش آئند ہے‘ امید ہے اس سے نوجوانوں کو کاروبار کرنے کے مواقع میسر آئینگے۔ بشرط ”سٹیئرنگ“ والے اسے ٹریک سے اترنے نہ دیں۔
٭....٭....٭
چین غلطی سے باز رہے ، بھرپور جواب دیں گے۔ جوبائیڈن
امریکہ کو خدا جانے امن و آشتی سے کیا بیر ہے‘ نہ خود آرام سے رہتا ہے ‘ نہ کسی کو سکون سے رہنے دیتا ہے۔ اسے سوویت یونین کے حصے بخروں سے سبق سیکھنا چاہیے جس کے بارے میں تصور بھی ممکن نہیں تھا کہ وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائیگا۔ آج سوویت یونین ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر صرف روس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اب امریکہ عالمی پہلوان بن کر ہر کسی کو للکارے مار رہا ہے۔ اس نے چین کی روز افزوں ترقی اور بڑھتی طاقت سے پریشان ہوکر اسکے ساتھ پنجہ آزمائی شروع کر دی ہے اور بلاوجہ چین کے متنازعہ معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کررہا ہے۔ چین نے بھی خاموشی توڑ کر امریکہ کو ترکی بہ ترکی جواب دینا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی فضا میں ایک غبارہ نمودار ہوا تو پورے امریکہ میں تھرتھلی مچ گئی کہ یہ چین نے جاسوسی کیلئے بھیجا ہے تاکہ امریکی زیرِ زمین اسلحہ کے ٹھکانوں کا سراغ لگائے۔ اس پر امریکی صدر جوبائیڈن نے سخت رویہ اپنایا۔ امریکی انتظامیہ نے بالآخر یہ غبارہ مار گرایا۔ حالانکہ چین نے اسکی کھل کر وضاحت کر دی تھی کہ یہ موسمیاتی ماحول کو مانیٹرنگ کرنے والا غبارہ تھا جسے امریکہ غلط رنگ دے رہا ہے۔ مگر امریکہ چین کو دھمکی دے کر جنگ کا ماحول پیدا کر رہا ہے تاکہ اس خطے کا پھر سے تورابورا بنا سکے۔ عالمی سطح پر اسکے کیا اثرات مرتب ہونگے‘ یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا۔ بہرحال دنیا کو اب ہوشیار ہو جانا چاہیے کیونکہ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا ہی ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭
بوسٹن یونیورسٹی کے سائنس دانوں کے مطابق انڈے کھانے سے دل کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
بقول ان کے‘ ہفتے میں پانچ انڈے کھانے سے بلڈ پریشر میں کمی اور خون میں موجود گلوکوز پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے جس سے دل کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں انڈوں کے نرخ جس تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں‘ ہفتے میں پانچ تو کجا‘ غریب کو مہینے میں ایک آدھ بھی مل جائے تو غنیمت ہے۔ اس لئے دل کو اسکے حال پر چھوڑ کر بے چارے غریب عوام جو سستے داموں مل جائے‘ اسی پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ایک انڈہ تمام تر پروٹین سے بھرپور ہوتا ہے‘ اسکے باوجود کھانے میں اعتدال سے ہی کام لینا چاہیے۔ اب تحقیق پر بھروسہ کرکے انھے واہ قوم انڈوں پر نہ لگ جائے کیونکہ انڈہ ان تین چیزوں میں شامل ہے جن میں سب سے زیادہ کولیسٹرول پایا جاتا ہے۔ تو پھر اس تحقیق کے مطابق کس طرح ممکن ہے کہ انڈہ کھانے سے بلڈپریشر میں کمی لائی جا سکتی ہے اور کولیسٹرول کم کیا جا سکتا ہے۔ البتہ کم بلڈ پریشر والے مریض کو ڈاکٹر حضرات انڈہ کھانے کا مشورہ دیتے ہیں جبکہ ہائی بلڈ پریشر والے کو انڈوں سے پرہیز بتایا جاتا ہے۔ اس لئے تحقیق پر بھروسہ کرکے انڈے کھانے کے بجائے اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرلیں‘ نقصان ہونے کی صورت میں سائنس دانوں کو کوسنے نہ دیں۔
٭....٭....٭
بھارتی وزیراعظم نرنیدر مودی کی دائیں بازو کی حکومت نے 14 فروری کو ”گائے کو گلے لگانے کا دن “ قرار دے دیا۔
بھارتی حکومت نے شہریوں سے کہا ہے کہ 14 فروری کو ویلینٹائن ڈے پر گائے کو گلے لگائیں۔ بھارت کے اینیمل ویلفیئر بورڈ نے کہا کہ اس نے فیڈرل اینیمل ہسبنڈری منسٹری سے مشاورت کے بعد 14 فروری کو ”گائے کو گلے لگانے“ کا دن قرار دیا ہے۔ اسکے بقول گائے کے بے شمار فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے گلے لگانا بہت جذباتی عمل ہوگااور اس سے ہماری انفرادی اور اجتماعی خوشیوں میں اضافہ ہوگا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندو دھرم میں انسانوں کے بجائے گائے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔اسی لئے وہاں مسلمانوں سمیت دوسری اقلیتوں کو انسان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ ہر مذہب انسانوں اور جانورں سے محبت کا درس دیتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی کئی پالتو جانور بڑی محبت سے پالے جاتے ہیں۔ بالخصوص قربانی کے جانور پر تو خاص توجہ دی جاتی ہے۔ انہیں دودھ‘ مکھن‘ گھی اور میوے کھلا کر پالا جاتا ہے اور جب ان کا یوم قربان آتا ہے تو انہیں قربان بھی کردیا جاتا ہے۔ گائے کو گلے لگانے کا کمال بھارت میں ہی نظر آسکتا ہے ۔
دنیا کو جو کچھ مودی سرکار کے دور میں دیکھنے کو مل رہا ہے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دیکھتے ہیں انکی یہ گﺅماتا 14 فروری کو بھارتی شہریوں کے ساتھ کس طرح ویلنٹائن ڈے مناتی ہے اور گلے لگانے پر انکے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔