اس وقت ہمارا ملک جن آزمائشوں اور مصیبتوں میں گرفتار ہے اس میں مہنگائی بیروزگاری اور دیوالیہ ہونے کے خطرات ہیں ہماری خودداری اور زندگیاں اس وقت مکمل طورپرسود خوروں کے نرغے میں ہے ، کیونکہ جن سیاستدانوں کی وجہ سے ہم گزشتہ پچھتر سالوں سے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا کے سامنے بھکاری بنے ہوئے ہیں۔ ظالم وجابرحکمرانوں نے اس پر ہی بس نہیں کی ہے مخلوط حکومت نے قوم پر 300ارب کے نئے ٹیکس مسلط کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ جتنے بھی اقدام ہوں گے ان کا تمام اثر اور بوجھ عوام پر ہی پڑے گا ۔ مثال کے طور پر اگر بینکوں کی آمدنی پر لیوی اور سگریٹس یا ٹھنڈے مشروبات اور جہازوں کے ٹکٹ مہنگے کیے جائیں گے تو ان میں سے بیشتر کا تو براہِ راست اثر عوام پر پڑے گا اور حکومت کیا سمجھتی ہے کہ بینکوں کی آمدن پر لیوی کہاں سے دی جائے گی یقینی طورپر وہ بھی عوام سے وصول کریں گے، اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ حکام بالا اپنے اس ظالمانہ طرز عمل کو اپنی مجبوری اور مشکل فیصلوں سے گردان رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں جو حکومت ملی ہے اس کے مسائل گزشتہ عمران خان کی حکومت کی وجہ سے ہی پیدا ہوئے ہیں ، مشاہد حسین سید مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار اور سینیٹر ہیں ، انہوں نے ایوان بالا کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنی حکومت کو مشورہ دے ڈالا ہے کہ اس لولی لنگڑی حکومت کو چلانے سے بہتر ہے کہ انتخابات کراکے اپنی جان
چھڑائیں ،لیکن شاید مشاہد حسین سید صاحب جو ایک معقول سیاستدان اور معتبر شخصیت کے طورپر پہچانے جاتے ہیں ‘ کیا اس بات کو نہیں جانتے ہیں کہ اگر موجودہ حالات میں انتخابات کرائے گئے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ عمران خان کامیاب ہوجائے گا،اس لیے اب ان کی تمام تر کوشش یہی ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کا اثرکسی طرح سے نکل جائے یعنی پہلے ملکی سیاست سے عمران خان کو مائنس کردیا جائے، حکومت کی ان چالاکیوں کو سمجھتے ہوئے صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو لکھے گئے خط میں انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا کہا ہے ۔ صدر عارف علوی نے اپنے خط میں کہا کہ آئین تاخیر کی اجازت نہیں دیتا، لہذا 2017 کے الیکشن کمیشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابی شیڈول جاری کرے ۔ خط کے مطابق: الیکشن کمیشن انتخابات کا اعلان کرے تاکہ صوبائی اسمبلی اور مستقبل کے عام انتخابات کے حوالے سے خطرناک قیاس آرائیوں پر مبنی پروپیگنڈے کو ختم کیا جا سکے ۔ خط میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 224 (2)اسمبلی کے انتخابات تحلیل ہونے کے 90دن کے اندر کروانے پر زور دیتا ہے جس کے مطابق انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کا بنیادی اور لازمی فرض ہے ۔ لیکن اس عمل کے بعد ملک کے سیکورٹی اداروں نے الیکشن میں سیکورٹی دینے سے انکار کردیاہے وزارت دفاع نے معذرت کرلی ہے کہ انتخابات میں فوج سیکورٹی نہیں دیگی،لاہور ہائی کورٹ نے بھی ڈی آراوزدینے سے انکارکیاہے،اسی طرح الیکشن کمیشن کی جانب سے مانگی گئی اضافی رقم کو بھی وزرات خزانہ نے دینے سے انکار کیاہے،یعنی ہر حربہ آزمایا جا رہاہے کہ کسی طرح اس وقت تک الیکشن نہ ہو جب تک عمران خان عدالتوں سے نا اہل نہ ہوجائیں ، جہاں تک عمران خان کو مائنس کرنے کی بات ہے تو اس وقت جو گرفتاریاں ہورہی ہیں اس میں بھی یہی حکمت کار فرما ہے ۔ شہباز گل ،اعظم خان سواتی،فواد چودھری اور پھر شیخ رشید کی گرفتاری کو دیکھتے ہوئے تو ایسا ہی لگتاہے کہ حکومت کی ترجیح امن و امان کا قیام یا پھر عوام کو مہنگائی سے نجات دلانا نہیں ہے بلکہ صرف سیاسی انتقام ہے جس کا آخری مہرہ عمران خان ہے جسے گرفتار کرنے کے لیے یہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں مگر عوام کے سڑکوں پر نکلنے اور غصے کو دیکھتے ہوئے وہ عمران خان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبر ارہے ہیں مگر یہ طے کہ انتخابات سے قبل وہ عمران خان کو ضرور گرفتار کرلینگے جس کے لیے وفاقی حکومت نے ان پر تین مختلف قسم کے مقدمات دائر کررکھے ہیں ،تاکہ عدالت سے بھی انہیں نا اہل کروالیا جائے ،بعد میں عمران خان کو جیل یاترا کروائی جائے افسوس کہ ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ ایک طرف دہشت گرد حملے کررہے ہیں ، دوسری طرف سیاسی مخالفین کو قید کیا جا رہا ہے ۔ وفاقی حکومت ہو یا نگران سیٹ اپ، سب کو فکر ہے کہ عمران خان کو کس طرح سے مائنس کرنا ہے ،اس پر خود بھی پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان متعدد باریہ کہہ چکے ہیں کہ کچھ عالمی قوتیں انہیں برداشت نہیں کررہی ہے اور یہ کہ نواز شریف کو واپس لانے کے لیے انہیں مائنس کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ عمران خان کی متوقع گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی رہنماں اور کارکنوں کی بڑی تعداد زمان پارک کے باہر جمع ہوئی اور کنال روڑ پر کیمپ لگا کر مسلسل لیڈر کی حفاظت کی جا رہی ہے اور کارکنوں کو جیل بھرو تحریک کے لیے نام لکھوانے کی ہدایت کر دی گئی ہے ۔ میں سمجھتاہوں کہ حکومت کو ایسے اقدامات نہیں کرنے چاہیے جس سے یہ تاثر جائے کہ وہ سیاسی انتقام لے رہی ہے ۔ جبکہ اگر حکومت نے عمران خان کو گرفتار کیا تو اس سے ان کے اس بیانیے کو تقویت پہنچے گی، جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور انہیں سازش کے تحت اقتدار سے باہر کیا گیا ہے ۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کو مائنس کرنے کا جنون صرف اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے سرپر ہی سوار نہیں ہے بلکہ کچھ عالمی قوتیں بھی عمران خان کو برداشت نہیں کرپارہی ہیں ،جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو امریکی اثر و رسوخ کے حصار سے نکالنے کی کوشش کی اور سامراج کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلم دنیا کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنے کی کوشش کی اس پر امریکہ کی طرف سے دھمکی دی گئی اور انہوں نے اس وقت کی پی این اے کی تحریک کو ترتیب دے کر اسے سبق سکھانے کا فیصلہ کیا جو بالآخر بھٹو کی برطرفی اور اس کے بعد پھانسی پر ختم ہوئی ۔ اسی طرح عمران خان کو خارجہ پالیسی کے شعبے میں آزادا رویہ اختیار کرنے پر ان کو نشانہ بنایا جارہا ہے عمران خان پوری دنیا میں ایک عالمی ہیرو بن کر ابھرے ہیں جو ان سامراجوں کو ایک آنکھ بھی نہیں بھارہاہے ، اس بات سے معلوم ہوتاہے کہ عمران خان کو آخر مائنس کون کرنا چاہتاہے اور کون ہے جو ان نادیدہ طاقتوں کی ہاں میں ہاں ملارہاہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ایک اور عالمی سازش
Feb 11, 2023