اٹھا رہا ہے جو فتنے مری زمینوں پر

Feb 11, 2024

غلام حیدر شیخ

الیکشن 2024 ء کا بڑاشور و غو غا تھا ، بالآخر انجام پذیر ہو گئے ، عہدِ رفتہ کی طرح اس بار بھی الیکشنوں میں مارا ماری ہوئی لیکن بہ نسبت کم ہوئی۔ تاہم جتنی بھی ہوئی وہ دل ہلا دینے والی ہے اور اگر ہم ایک قوم ہیں تو یہ قومی لمحہء فکریہ ہے ، جب کہ ہم میں ایسا تفرقہ پیدا کر دیا گیا ہے جو کہ فتنہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
2014 ء کے الیکشنوں سے فتنہ کی جو لہر اْٹھی وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی بلکہ یہ فتنہ اس قدر بڑھتا جا رہا ہے کہ ملکی سا لمیت کو خطرات لا حق ہو گئے ہیں ، نوجوانوں کے دلوں میں زہر گھول دیا گیا۔ نہ ماں کا احترام رہا نہ باپ کا ، صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں لرزہ خیز واقع پیش آیا ، دیار غیر سے آئے لڑکے نے تحریک ِ انصاف کا جھنڈا گھر کی چھت پر لگا یاتو والد نے بیٹے کو تاکید کی کہ ووٹ جس کو مرضی دو لیکن چھت پر جھنڈا لگانے والی بات صحیح نہیں ، اس بات پربیٹے نے اپنے والد سے بحث شروع کر دی اور بات اس حد تک بڑھی کہ والد نے پستول نکا کر اپنے ہی بیٹے کو مار دیا۔
اللہ سے کرے دور ، تو تعلیم بھی فتنہ 
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ۔ 
تاریخی طور پر خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کے دوران تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ، جن میں الیکشن لڑنے والے امیدواروں کو بم حملوں میں نشانہ بنانے اور گولی مار کر قتل کرنے کے واقعات شامل ہیں لیکن اپنے لختِ جگر کو مارنے کا یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے کہ سیاسی اختلافات نے رشتوں کی پہچان ہی ختم کردی ، پاکستان میں سیاسی عدم برداشت اب تشدد کی شکل میں انتہا تک پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں تقسیم بہت واضح ہو گئی ہے،یہاں تک کہ یہ تقسیم قریبی سماجی رشتوں ، کاروباری افراد کے تعلقات اورنوکری پیشہ افراد میں بھی تنائو کی شکل میں نظر آنے لگی ہے۔
ملک میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا رویہ جنگجو حریفوں کی طرح ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے ، اور یہ مقابلہ زبان کی حد تک محدود نہیں رہتا اس میں پْر تشدد واقعات بھی رونما ہوتے ہیں ، در حقیقت دور حاضر اور مستقبل ممی پاپا نوجوان نسل کا ہے، جن میں دور اندیشی کا فقدان ہے ، گرم خون ، نوجوانی کی غیر سنجیدگی،اکھڑپن اور کھلنڈرے مزاج کی وجہ سے قومی سوچ سے بے بہرہ ہیں، جو کہ ملک میں فتنہ کی سی صورت اختیار کر چکا ہے ، د ورِ جدید میں سیاسی انتہا پسندی اور سیاسی تفریق نے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے ، آج کی نسل اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑ کر ادب و احترام کا رشتہ بھی بھول گئی ہے ، معاشرہ باہم سیاسی و جزوی اختلافات میں منقسم ہو گیا ہے۔ سیاسی و مذہبی انتشار و خلفشار کی وجہ سے دلوں میں نفرتیں بھر گئی ہیں ، یہ سارا کچھ 2014ء کے انتخابات کے دوران ایک منظم طریقے سے کیا گیا جو کہ اب ایک فتنے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
اٹھا رہا ہے جو فتنے مری زمینوں میں 
وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں
کہیں سے زہر کا تر یاق ڈھونڈنا ہوگا 
جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے سینوں میں
کسی کو فکر نہیں قوم کے مسائل کی 
ریا کی جنگ ہے بس حاشیہ نشینوں میں
قصور وار سمجھتا نہیں کوئی خود کو
چھڑی ہوئی ہے لڑائی منافقینوں میں
یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں 
کہ اقتدار رہے ان کے جانشینوں میں
یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لئے
کھڑے رہو گے کہاں تک تماش بینوں میں
حالیہ ملکی حالات کا المیہ یہ ہے کہ ہر شعبہ میں بے لوث اور مخلص قیادت کا فقدان ہے ، نوجوان نسل میں خود اعتمادی نہیں ہے ، اور نہ ہی قیادت کا جذبہ ہے ، آج کے دور میں عموماً والدین اور اساتذہ بچوں میں سوچ و فکر پیدا کرنے کی کوشش نہیں کر پاتے جس کی وجہ نوجوان نسل میں ادب و احترام کا فقدان اور ان کا اکھڑ پن ہے ،اور یہی رویہ ملکی حالات میں یکطرفہ طور پر انہیں جہاں لے کر جا رہا ہے ، ان کو وہی اپنی منزلیں سمجھتے ہیں ، ادب ایک ایسی سیڑھی ہے جس سے نوجوان اپنی اختراعی کوششوں اور انفرادی صلاحیتوں کی مدد سے کسی ہجوم میں بھی ممتاز و منفرد مقام حاصل کر سکتے ہیں ، ملک کی بقاء اور سلامتی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نیاانداز ، نئی روش پیدا کرنے والا موجد ہی ملکی قیادت کا حقدار ہوتا ہے ایسے رہنما اور اس کے پیرو کار وں میں معاشرے کے انفرادی افراد کی اجتماعی خواہشات کا پتہ لگانے کی ذہانت اور دور اندیشی موجود ہوتی ہے ، لیکن جو شخص اپنی بات پر قائم ہی نہ رہے وہ عوام کی قیادت کے قابل نہیں ہوتا۔ اس کے وعدوں پر یقین کرنے والے دھوکے اورسراب کے پیچھے دوڑ کر ملک اور اپنی زندگی کے خاتمے کے ذ مہ دار ہوتے ہیں۔
کس قدر ظلم ہے حالات کا نوری صاحب 
آپ دھوکا مجھے دیں اور میں دھوکا نہ کہوں
 ایسا لگتا ہے کہ ملک میں دور اندیشی اور حب الوطنی قحط کی سی شکل اختیار کر چکی ہے ، سیاسی نظریات کا جنازہ نکل چکا ہے ، اخلاقیات اور معاشیات کہیں گھپ اندھیروں میں کھو گئی ہیں اقتدار کے بھوکے لاشوں پر رقصاں ہیں ، عام انتخابات 2024 ء میں عوامی نمائندوں اور عام شہریوں کا قتل قابلِ مذمت ہے لیکن پسِ پردہ عوامل بھی منظر، عام پر لائے جائیں اور سیاست میں دہشت گردی اور فتنے کا سدِ باب ضروری اہمیت کا حامل تقاضا ہے ، اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ فتنہ و فساد ہے ، لہذا پاکستان میں فتنہ پھیلانے والوں کا مکمل خاتمہ کیا جانا چاہئے اور یہی ملک کے پْر امن ماحول اور ملکی سلامتی کا تقاضہ ہے۔

مزیدخبریں