بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں پولیس نے ایک مدرسے کی مسماری کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں کم از کم چار مظاہرین جاں بحق اور 260سے زائد زخمی ہو گئے۔
بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بہیمانہ ریاستی دہشت گردی ہوتی ہے مگر یہ جو کچھ ہوا ہے یہ بھارت کے اندر ہوا ہے۔ بھارت خود کو سیکولر کہلواتا ہے مگر مودی کے آنے کے بعد سیکولر انڈیا کو شدت پسند ہندو ریاست میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔مدرسے کی مسماری کیخلاف پر امن مظاہرہ ہو رہا تھا یہاں بھی ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا گیا۔ پولیس کی طرف سے پر امن مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کی گئی۔زخمی ہونے والوں کی تعداد 260 ہے اس اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح کا ان پر ظلم ڈھایا گیا جبکہ چار افراد موقع پر جان بحق ہو گئے تھے۔صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا اس کے بعد علاقے کے مسلمانوں پر تشدد کیا جا رہا ہے اور ان کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ ان مظالم کی پردہ پوشی کے لیے انٹرنیٹ بند اور کرفیو لگا دیا گیا ہے۔وہاں مسلم کشی کا خطرہ بھی ہے جس کو ہندو شدت پسندوں کی طرف سے ہندو مسلم فساد سے تعبیر کیا جائے گا۔بھارت میں ہمیشہ سے اور مودی دور میں خصوصی طور پر اقلیتیں غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہیں۔مساجد کو گرا دیا جاتا ہے۔چرچوں کو آگ لگا دی جاتی ہے۔گولڈن ٹیمپل پر جس طرح یلغار کی گئی وہ سیکولر بھارت کے چہرے پر سیاہ دھبہ ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عالمی برادری کی طرف طرف سے اس پر سرسری سا رد عمل دیا جاتا ہے جبکہ ایسے مظالم کوروکنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے اقوام متحدہ کا دہرا معیار رہا ہے۔اس کی طرف سے بروقت اور سخت اقدامات کیے جا تے تو بھارت کے ظلم کا ہاتھ روکا جا سکتا تھا۔ ادھر اسرائیل کی جارحیت پر بھی عالمی برادری اور اقوام متحدہ خاموش ہیں۔ جو بائیڈن کی طرف سے آج کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیاں حد سے متجاوز ہیں۔ یہ دوہرا معیار ہی نہیں بلکہ منافقت بھی ہے کہ ایک طرف اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف ظلم و جبر کے لیے اسلحہ اور ہر قسم کی امداد فراہم کی جاتی ہے اور دوسری طرف اس کی کارروائیوں کو حد سے تجاوز قرار دیا جاتا ہے۔ قصہ مختصر جب تک اقوام متحدہ اپنا کردار ادا نہیں کرتا فلسطینی اور بھارتی مسلمانوں پر بہیمانہ مظالم کا سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا۔