چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نےحج کرپشن سکینڈل کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے نے وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ اُنہوں نے حج انتظامات میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات سے خود کو الگ کرنے کے لیے حکومت کو درخواست دے دی ہے، چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی ایف آئی اے وسیم احمد کی وجہ سے کیس خراب ہوا تو کسی کو بخشا نہیں جائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس کیس کو ڈی جی ایف آئی اے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا اور اُنہیں دیگر کیسوں کی تحقیقات سے بھی الگ کر دینا چاہیئے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ حکومت ڈی جی ایف آئی اے کی کیس سے الگ ہونے کی درخواست پر عملدرآمد کے بارے میں تین دن میں آگاہ کرے۔ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لوٹ مار کرنے والوں کو اگر تحفظ دیا گیا تو پھرہم سب کا تو اللہ ہی حافظ ہے، جب سے اس کیس کی سماعت شروع ہوئی ہے ہم یہ کہتے رہے ہیں کہ اللہ کے ڈر سے ہی دیانتداری سے تفتیش کرلو لیکن ایسا نہیں ہوسکا، اب ہمیں کوئی ایسا جادو بتایا جائے جسے پھونکنے سے ڈی جی حج اور دوسرے لوگ درست تفتیش کرنا شروع کردیں۔ برطرف کیے جانے والے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے وکیل افنان کنڈی نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسرحسین اصغر کوسعودی عرب نہیں جانے دیا جا رہا اور سٹیٹ بینک نے ایف آئی اے کو ملزمان کے اکاونٹس کی تفصیلات بھی فراہم نہیں کیں۔عدالت نے حکم دیا کی تفتیشی افسر حسین اصغر کو فوری طور پے سعودی عرب روانہ کیا جائے تاکہ اس سکینڈل میں ملوث دوسرے لوگوں سے بھی تحقیقات کی جا سکیں۔ عدالت نے مزید سماعت بیس جنوری تک ملتوی کردی۔