لسانی، علاقائی اور قوم پرستی کی بنیاد پر صوبے نہیں بننے چاہئیں

Jan 11, 2012

سفیر یاؤ جنگ
لاہور (رپورٹ: سیف اللہ سپرا) جنوبی پنجاب اور ہزارہ کے عوام الگ صوبوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اس کے علاوہ بہاولپور کے لوگ ریاست کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لئے وزیراعظم گیلانی اور ایم کیو ایم عجلت سے کام لے رہے ہیں اور آئین کی پابندی نہیں کر رہے۔ اس کے لئے صوبائی اسمبلیوں میں عام بحث ہو اور پھر پارلیمنٹ آئین کے مطابق فیصلہ کرے۔ لسانی، علاقائی اور قوم پرستی کی بنیاد پر صوبے نہیں بننے چاہئیں بلکہ انتظامی یونٹس کے طور پر نئے صوبے بننے چاہئیں اگر پاکستان میں علاقے زبان اور نسل کی بنیاد پر نئے صوبے بنے تو پھر ہر صوبے میں کئی کئی صوبے بن جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن کے زیراہتمام ایوان وقت میں ”نئے صوبوں کی تشکیل“ کے موضوع پر مذاکرے میں کیا۔ مذاکرے کے شرکاءمیں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل احسان وائیں، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، قائم مقام صدرمسلم لیگ فنکشنل سلطان محمود، جنرل سیکرٹری پیپلزپارٹی پنجاب سمیع اللہ خان اور رہنما مسلم لیگ (ن) سید زعیم حسین قادری تھے۔ نظامت انچارج ایوان وقت / حمید نظامی ہال سیف اللہ سپرا نے کی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل احسان وائیں نے کہا کہ نئے صوبے خالصتاً زبان کی بنیاد پر ایم کیو ایم بنانا چاہتی ہے۔ دراصل وہ پنجاب اور خیبر پی کے کو تقسیم کرانے کے بعد سندھ کو بھی تقسیم کرانا چاہتی ہے اور کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی نسل اور زبان کی بنیاد پر سیاست نہیں کرتی۔ ہزارہ صوبہ صرف چند خود ساختہ سیاسی لیڈروں کا شوشہ ہے، ہزارہ کے لوگ ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا پاکستان وفاقی نظام پر مشتمل ہے۔ حالات اور ضرورت کے مطابق صوبوں میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ 1955ءاور 1971ءمیں فوجی آمروں نے اپنی مرضی کی تبدیلیاں کیں لیکن عوام اس صورتحال پر مطمئن اور خوش نہیں، سیاسی اور جمہوری حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ عوام کی رائے سمجھیں اور احترام کریں۔ وزیراعظم اور ایم کیو ایم کی عجلت بتا رہی ہے کہ آئین اور ضابطہ کار کی پابندی نہیں کی جا رہی۔ اس مسئلے پر صوبائی اسمبلیوں میں بحث ہو اور پارلیمنٹ آئین کے مطابق فیصلہ کرے، لسانی، علاقائی اور قوم پرستی کی بنیاد پر صوبے نہیں بننے چاہئیں، ڈیموں کی تعمیر کو متنازعہ بنانے کے بعد بعض سیاسی حکومتیں اپنے اسلوب سے صوبوں کے معاملہ کو بھی متنازعہ بنا رہی ہیں۔ منافقت اور عوام کو دھوکہ دینے کے کھیل میں صدارت اور وزارت عظمیٰ کے ساتھ جمہوریت کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے۔ قائم مقام صدر مسلم لیگ فنکشنل سلطان محمود نے کہا ہماری پارٹی کا مﺅقف یہ ہے کہ ماورا آئین کوئی کام نہ کیا جائے، نئے صوبوں کے متعلق جو مطالبات کئے جا رہے ہیں ان میں سب سے اہم بات وہاں کے لوگوں کی شناخت کا مسئلہ ہے۔ نئے صوبوں کا شوشہ سرحد کا نام خیبر پی کے رکھنے سے شروع ہوا۔ اگر خیبر پی کے کا نام رکھ دیا گیا ہے تو پھر ہزارہ کا صوبہ بھی بننا چاہئے۔ جنرل سیکرٹری پیپلزپارٹی پنجاب سمیع اللہ خان نے کہاکہ دنیا بھر میں عوام کو سہولیات پہنچانے اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا عمل عرصہ دراز سے جاری ہے۔ دو مارشل لاﺅں (ضیاءاور مشرف) نے چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا کر دیا، آج صورتحال یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کو پنجاب سے کچھ جائز اور کچھ ناجائز شکایات پیدا ہو چکی ہیں جس کے نتیجے میں جنوبی پنجاب میں نئے صوبے کی بات زیادہ شدت سے اٹھائی جا رہی ہے اور اس مسئےل پر پنجاب کی تمام قابل ذکر پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے بڑھ رہا ہے۔ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ پاکستان میں جہاں بھی نئے صوبے کی بات ہو اس پر اتفاق رائے انتہائی ضروری ہے۔ رہنما مسلم لیگ (ن) سید زعیم حسین قادری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا واضح مﺅقف ہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل لسانی بنیادوں پر نہ ہو بلکہ زیادہ مﺅثر انتظامی یونٹ کے طور پر ہو۔ اس سے نہ صرف نئے صوبے بنانے میں آسانی پیدا ہو گی بلکہ ان مسائل کا حل بھی نکل آئے گا جن کی آج بہت ضرورت ہے۔
مزیدخبریں