ہمارے ایک سادہ دل ملازم نے جنوری کی صبح مجھے آنسو بہاتے ہوئے دیکھا تو اس نے پوچھا ”دنیا سے جانے والا آپ کا کوئی عزیز تھا“ میں نے جواب دیا وہ عزیز از جان تھا بلکہ عزیز جہاں تھا۔ قاضی حسین احمد کے ہردلعزیز ہونے کا اندازہ تو مجھے برسوں سے تھا مگر وہ اتنے عزیز جہاں ہونگے اور اپنے اور ”پرائے“ کے دل میں یوں گھر کئے ہوں گے اس کا اندازہ مجھے انکی وفات کے بعد ہوا۔ ٹیلی وژن چینلوں سے لے کر اخبارات کے خصوصی ایڈیشنوں تک ہر طرف کئی روز سے قاضی صاحب کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ قاضی صاحب کا چرچا ہو رہا ہے۔ تقریباً ہر قومی اخبار کے کالم نگاروں نے جس اپنے پن کے ساتھ قاضی صاحب کے ساتھ اپنی ذاتی یادوں کو تازہ کیا ہے اور انکی عظمت کے نقوش کو اجاگر کیا ہے اس سے عیاں ہوتا ہے کہ قاضی صاحب کی شفقت بے پایاں تھی۔ ہر کالم نویس نے جس طرح ان کی محبت و شفقت کی کہانی کچھ انکی کچھ اپنی زبانی بیان کی ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے گویا قاضی صاحب سب سے زیادہ اسکے قریب تھے۔
میں بھی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہوں جنہیں قاضی صاحب کی خصوصی شفقت حاصل تھی۔ والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری کے حوالے سے وہ ہم بھائیوں کے ساتھ بڑی محبت اور اپنائیت سے پیش آتے۔ میرے قیام طائف کے دوران وہ پاکستانیوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیلئے مکہ مکرمہ سے وہاں تشریف لائے تو میزبانوں کی ایک طویل قطار انکی منتظر تھی اور ہر کوئی شرف میزبانی کیلئے بے تاب تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ فقیر بھی انکی میزبانی کا امیدوار ہے تو انہوں نے قرعہ فال میرے نام ہی نکالا اور رات کے کھانے کیلئے دیگر احباب کیساتھ تشریف لائے۔ فرشی نشست پر انہوں نے بڑی بے تکلفی کیساتھ کھانا تناول فرمایا۔ رات گئے تک دین و سیاست، پاکستان کے حالات اور عالم اسلام کے احوال پر گفتگو فرماتے رہے۔ قاضی صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ محفل کو کبھی بوجھل نہ ہونے دیتے۔ کلام اقبال سے محفل کو گرماتے اور خوشگوار لطائف اور ہلکے پھلکے واقعات کے تذکرے سے مجلس کو کشتِ زعفران بنا دیتے۔
سعودی عرب سے مستقلاً پاکستان واپس دس برس قبل میں آ گیا تو قاضی صاحب کیساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہو گیا۔ کبھی ان کی خدمت میں اسلام آباد، کبھی نوشہرہ اور کبھی منصورہ لاہور میں حاضر ہونے کا موقع ملتا رہا۔ ان ملاقاتوں میں صورتحال یہ ہوتی کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ چار پانچ برس قبل میں نوائے وقت کیلئے ان کا انٹرویو کرنے نوشہرہ گیا۔ ان کا دستر خوان بہت وسیع تھا۔ وہ بڑی شفقت سے مہمان نوازی اور دلداری کے فرائض انجام دیتے رہے اور میں بار بار شرمندہ ہوتا رہا کہ اتنی عظیم شخصیت مجھ ایسے ناچیز کیلئے اتنا اہتمام کر رہی ہے۔ دوران انٹرویو تلخ و شیریں ہر طرح کے سوالات ہوتے رہے مگر قاضی صاحب کے لہجے کی شیرینی برقرار رہی۔ ایک لمحے کیلئے بھی تلخی نہ آئی۔ قاضی صاحب نہایت خوش اخلاق، خوش گفتار اور خوش لباس شخصیت تھے۔ وہ اگر گھنٹوں گفتگو کرتے تو سامع ہمہ تن گوش رہتے اور ایک لمحے کیلئے بھی نہ اکتاتے۔ بقول شاعر....
وہ خوش کلام تھا ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
قاضی صاحب شفقت و محبت کیساتھ ساتھ جرات و عزیمت اور استقامت کی تصویر بھی تھے۔ وہ ظلم کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے اور انکے پائے استقلال میں ایک لمحے کیلئے بھی تزلزل نہ آتا۔ قاضی صاحب 1987ءمیں جماعت اسلامی کی امارت کا منصب سنبھالتے ہی کاروان دعوت و محبت لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ انہوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ جماعت اسلامی کو دارالمطالعوں، دفتروں، مدرسوں اور دانشگاہوں سے نکال کر کوچہ و بازار میں لے آئینگے اور اسے ایک عام آدمی کی جماعت بنا دینگے۔ قاضی صاحب کی شخصیت میں اتنی کشش تھی کہ عام آدمی انکے ساتھ وابستگی کو اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتا تھا۔ قاضی صاحب نے جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانے کیلئے رات دن محنت کی۔
25 اکتوبر 1993ءکا منظر ہے۔ قاضی صاحب کے پرامن دھرنے پر پولیس پل پڑی۔ یہ دھرنا بے نظر بھٹو کے دور میں کرپشن کیخلاف تھا۔ گھوڑوں پر سوار پولیس اہلکاروں سے قاضی صاحب پر لاٹھیاں برسائیں۔ انکی ٹوپی گر گئی۔ انکی عینک ٹوٹ گئی۔ آنسو گیس سے ریلی کے شرکار بے حال ہو گئے۔ اس وحشیانہ لاٹھی چارج سے جماعت اسلامی کے تین کارکن شہید ہو گئے۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف نے زمام اقتدار پر قبضہ کرتے ہی اپنے کتے کے ساتھ تصویر کھنچوائی اور کمال اتاترک کو اپنا آئیڈیل قرار دیا۔ قاضی صاحب نے پرویز مشرف کی اس مغرب نوازی کی فی الفور خبر لی اور بیان دیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کمال اتاترک ماڈل کبھی نہیں آ سکتا۔
جنرل پرویز مشرف نے انہیں کئی بار پابند سلاسل کیا مگر قاضی صاحب قید و بند کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ قاضی صاحب صرف پاکستان کے دینی و سیاسی رہنما نہ تھے بلکہ وہ عالم اسلام کے قائد بھی تھے۔ عالم اسلام کے کونے کونے میں انکی وفات کو ایک ذاتی صدمے کی حیثیت سے محسوس کیا گیا۔ چار پانچ براعظموں میں انکی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام میں بھی انکی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی یقیناً یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ قاضی حسین احمد عالم عرب میں امام قاضی کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ عربی، فارسی، انگریزی، اردو اور پشتو میں یکساں روانی کے ساتھ گفتگو کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ عرب انہیں اپنا امام، پیشوا اور اپنا قائد سمجھتے تھے۔ مسلمانوں پر جہاں کہیں خنجر چلتا تڑپتے قاضی صاحب تھے۔ وہ کشمیر، برما،بوسنیا، کسوو، افغانستان، فلسطین، چیچنیا کے مسلمانوں کے دکھ درد کو اپنا غم اور درد سمجھتے تھے۔
عالمی اسلامی تحریکوں کے باہمی اختلافات دور کرانے کیلئے قاضی صاحب کی مساعی جمیلہ کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ سوڈان کے موجودہ صدر عمر البشیر اور سابق وزیراعظم حسن الترابی دونوں وہاں کی تحریک اسلامی سے وابستہ ہیں۔ ان کے درمیان سخت نوعیت کے اختلافات پیدا ہو گئے۔ فریقین نے قاضی صاحب کو ثالث تسلیم کر لیا۔ سوڈان کی دونوں شخصیات قاضی صاحب کا بے حد احترام کرتی تھیں۔ قاضی صاحب کی کوششوں سے فریقین صلح پر آمادہ ہو گئے۔ اسی طرح کے سابق اسلام پسند وزیراعظم نجم الدین اربکان مرحوم اور موجودہ وزیراعظم رجب طیب اردگان میں رنجش پیدا ہو گئی تھی۔ قاضی صاحب کی مصالحانہ کاوشوں سے ان کی باہمی غلط فہمیاں بڑی حد تک دور ہو گئی تھیں۔ (جاری)
عرب دنیا سے تعلق رکھنے والے حضرات قاضی حسین احمد کیساتھ ایک قلبی، روحانی اور ذاتی رشتہ محسوس کرتے تھے۔ فلسطین سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالحمید قضا نے مجھے بتایا کہ قاضی صاحب نہایت شفیق اور نفیس شخصیت ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ صرف قاضی ہیں اور میں قضاة ہوں یعنی قاضیوں کا قاضی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے گلے لگا لیا۔ قاضی صاحب کی شخصیت میں قوس قزح کے سارے رنگ یکجا ہو گئے تھے۔ وہ بیک وقت مبلغ بھی تھے اور مفکر بھی وہ خطیب بھی تھے اور ادیب بھی وہ معلم بھی تھے اور مجاہد بھی وہ عالم بھی تھے اور داعی بھی گذشتہ تین چار برس سے انہوں نے باقاعدہ کالم نویسی شروع کر دی تھی۔ ان کا کالم بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ قاضی صاحب کی ایک بڑی منفرد خوبی نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ وہ یہ کہ انکی سوچ جامد نہیں متحرک تھی۔ تحریک اسلامی قبول عام کے مقام پر لے جانے کیلئے نت نئے خیالات انکے قلب و ذہن کو منور کرتے رہتے تھے قاضی صاحب ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں ذرا دیر نہ لگاتے تھے۔ قاضی صاحب کی متنوع، جامع اور کثیرالجہات شخصیت کو علامہ اقبالؒ کے ایک مصرعے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔
عرب کا حسن طبیعت عجم کا سوز دروں
قاضی حسین احمد صاحب نے 2008ءکے عام انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تو میں نے اگلے روز ہی کالم لکھا جس کا عنوان تھا ”نو بائیکاٹ“ کالم کی کاٹ کچھ ایسی تھی کہ جسے قاضی صاحب نے بھی محسوس فرمایا۔ انہوں نے مجھ سے براہ راست شکوہ کیا۔ یہ میرے ساتھ ان کی اپنائیت اور محبت کا ایک ثبوت تھا۔ وہ میرے خلیق و شفیق بزرگ تھے۔ شوہ کیا سرزنش کرنا بھی ان کا حق تھا۔ تاہم اس شکوے کے بعد انہوں نے اس بات کو کبھی نہ دہرایا اور مجھے ان کی طرف سے پہلے والی نوازش اور شفقت حاصل رہی۔ مولانا مودودی، قاضی حسین احمد کے دینی و سیاسی رہنما تھے جبکہ علامہ اقبال ان کے روحانی مرشد تھے۔ قاضی صاحب کو فارسی اور اردو کلام اقبال کا بہت بڑا حصہ ازبر تھا اور وہ اقبال کے اشعار کو بڑے جذبے و سوز کے ساتھ پڑھتے اور مجلس اقبال کی محفلوں میں اقبال کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے نوجوانوں کو کلام اقبال پڑھنے اور سمجھنے کی ترغیب دیتے۔ ان مجالس یں ان کے پرسوز انداز میں پڑھے ہوئے اشعار آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
قاضی صاحب کی وفات سے صرف دو ہفتے قبل منصورہ لاہور ان سے ون ٹو ون طویل ملاقات ہوئی۔ مہمان نوازی کا ان کے ہاں بڑا دلفریب انداز تھا چائے اور دیگر لوازمات سے پہلے زمزم اور مدینہ منورہ کی کھجوریں پیش کی گئیں۔ قاضی صاحب نے ملکی سیاست کا بڑا حقیقت پسندانہ تجزیہ پیش کیا۔ وہ ایم ایم اے کی بحالی اور دینی جماعتوں کے وسیع تر اتحاد کے خواہاں تھے۔ وہ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) کے انتخابی اتحاد کے خواہاں بھی حامی تھے۔ قاضی حسین احمد ی جامع اور پرکشش شخصیت جماعت اسلامی کے لئے بہت بڑا اثاثہ ہے۔ یہ صدقہ جاریہ جاری و ساری رہنا چاہئے۔ شاید بہت کم، لوگوں کو معلوم ہے کہ مولانا مودودی اوائل شباب میں شعر بھی کہتے تھے کچھ اشعار تو لگتا ہے انہوں نے قاضی صاحب کے لئے کہے تھے
ارباب محبت کا ڈھنگ سب سے نرالا
اک آن میں دیوانہ ایک آن میں فرزانہ
اک قطرہ سے عالم میں طوفان بپا کر دے
ایک جرعہ سے پیدا کر میخانہ کا میخانہ
آتش ہے نہاں تجھ میں پھر شمع کی کیا حاجت
خود شعلہ تاباں بن، اے سوزش پروانہ
فی الواقع قاضی صاحب شعلہ تاباں تھے اور عزیز از جان تھے۔
قاضی حسین احمد، عزیز از جان .... (۱)
Jan 11, 2013