اتوار 6 جنوری 2013ءکی صبح بھارتی فوج نے حاجی پیر سیکٹر میں کنٹرول لائن کے پار پاکستانی چیک پوسٹ پر حملہ کرکے لانس نائیک محمد اسلم کو شہید اور اسکے ایک ساتھی کو زخمی کر دیا تھا۔ اس پر پاکستان نے بھارتی ہائی کمشنر کی غیرموجودگی میں ڈپٹی ہائی کمشنر کو اسلام آباد دفتر خارجہ میں طلب کرکے شدید احتجاج کیا اور فوری طور پر فلیگ میٹنگ بلانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ بھارتی فوج کے ایک ترجمان کرنل برجیش پانڈے نے اس واقعہ پر موقف اختیار کیا تھا کہ ضلع اڑی میں پاک فوج کی جانب سے مارٹر گولے فائر کئے گئے تھے جس کے جواب میں بھارتی فوج نے پاکستانی چوکی پر ہلکے ہتھیاروں سے جوابی فائرنگ کی۔ پھر تین دن بعد بھارتی میڈیا میں یہ غلغلہ ہونے لگا کہ منڈھیر سیکٹر میں چھ جنوری اتوار کی صبح پاکستانی فوجیوں نے کنٹرول لائن عبور کرکے دو بھارتی سیکورٹی اہلکار کو ہلاک کیا اور ایک کا سر کاٹ کر ساتھ لے گئے۔ بھارتی میڈیا نے یہ خبر مقامی فوج کے حوالے سے جاری کی جس پر بھارت کے سیاسی‘ سرکاری اور غیرسرکاری حلقوں میں کہرام مچ گیا۔ پاکستانی ہائی کمشنر سلمان بشیر کو دہلی کی وزارت خارجہ میں طلب کرکے شدید احتجاج کیا گیا۔
اپنے کان کو چیک کئے بغیر بھارتی وزیر خارجہ سلمان نے دوڑ لگا دی۔ انہوں نے بڑے تند وتیز بیانات دیئے‘ وہ کہتے ہیں‘ ہمارے پاس ثبوت ہیں۔ جب ضرورت پڑیگی دکھائیں گے۔ منڈھیر سیکٹر کا واقعہ ناقابل قبول ہے۔ پاکستان لائن آف کنٹرول پر واقعہ کی وضاحت کرے۔ پاکستان کے جواب کا انتظار ہے۔ اپنے تحفظات سے پاکستان کو آگاہ کردیا۔ پاکستان کو سخت پیغام دیا ہے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اس واقعہ پر پاکستان کو مناسب جواب دیا جائیگا۔ دوسری جانب وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھارتی فوجیوں کے قتل میں پاکستان کے ملوث ہونے کی دوٹوک الفاظ میں تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ چونکہ بھارت کے اندر ہوا‘ اس لئے بھارت اسکی تحقیقات کرے۔ پاکستان نے اپنی تحقیقات مکمل کرلی۔ ہم تیسرے فریق سے تحقیقات کیلئے تیار ہیں۔ وزارت خارجہ‘ پاک فوج کے ترجمان اور بھارت میں موجود پاکستانی ہائی کمشنر نے بھی بھارتی سرکار اور میڈیا کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ بھارتی میڈیا اور حکام اپنے فوجیوں کی ہلاکت سے زیادہ انکے سر کاٹنے کے واقعہ کو اچھال رہے ہیں۔ فوجی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں‘ ان میں ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں‘ لیکن قتل کے بعد لاشوں کو مسخ کرنے اور سرکاٹ کر ساتھ لے جانے کے بہیمانہ اور اندوہناک فعل کو ہر معاشرے میں قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔ پاک فوج کا یہ کبھی شیوا نہیں رہا ہے جو لوگ انسانوں کو ذبح کرتے اور سر کاٹ کر ساتھ لے جاتے ہیں‘ آج پاک فوج تو انکے خلاف برسر پیکار ہے۔ چہ جائیکہ وہ ایسے نفرت انگیز فعل کا ارتکاب کرے۔ اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو بھارتی فوج اس کا کھرا اپنے ہاں کہیں تلاش کرے۔
بھارتی حکام کے لغو الزامات کی قلعی اس سے بھی کھل جاتی ہے کہ بھارت کے اندر فوجی چیک پوسٹ تک مسلح پہریداروں کی موجودگی میں پاک فوج کے اہلکار کیسے پہنچ گئے؟ سر کاٹنے کے حوالے سے خود بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کہتے ہیں ”جو خبر ہے اسکے مطابق دونوں سپاہیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا گیا تاہم مجھے صرف ایک سپاہی کا سر قلم کرنے کی خبر ملی ہے“۔ بھارت کی سات لاکھ مسلح افواج کے ہوتے ہوئے پاکستانی فوجی لائن آف کنٹرول عبور کرکے دو اہلکاروں کو قتل کرکے ان کا سر کاٹ کر ساتھ لا سکتے ہیں؟ یہ بھی مضحکہ خیز بات ہے کہ دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک کا وزیر خارجہ اپنی ایجنسیوں کی رپورٹ کے بجائے خبر پر اعتبار کرکے پاکستان پر ایسے الزامات لگا دیتا ہے جس کے باعث دو ممالک کے مابین تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے تو ایسی فوج کو کشمیر میں اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے اپنا بوریا بستر لپیٹ لینا چاہیے اور بھارتی وزیر خارجہ کو اپنی نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے گھر کو چلے جانا چاہیے۔ بھارتی میڈیا‘ سرکار اور سیاست دانوں کے الزامات‘ منہ سے اڑتی کف کے ساتھ دی جانیوالی دھمکیوں کے غبارے سے ہوا خود بھارتی فوج کے ترجمان نے نکال دی ہے۔ بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فورسز کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی اور بھارتی فوجیوں کے سر قلم کئے جانے کے حوالے سے میڈیا کی رپورٹوں کو سختی سے مسترد کیاہے۔ بھارتی فوج کی نادرن کمانڈر کے ترجمان راجیش کے کالیا نے کہا ہے کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی کوئی باضابطہ اطلاع موجود نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ثبوت ملا ہے کہ پاکستانی فورسز نے بھارتی فوجیوں کے سر قلم کرکے انکی لاشوں کی بے حرمتی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے بھارتی میڈیا کی اطلاعات مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں تاہم ایک فوجی کی نعش بھارت کے زیر کنٹرول جنگل سے ملی تھی جس کے بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ آیا یہ لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب سے فائرنگ کی زد میں آکر مارا گیا ہے یا اسکی کوئی اور وجوہات تھیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ فی الحال لائن آف کنٹرول پر سیز فائر برقرار ہے۔ کبھی کبھار اکا دکا فائرنگ کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
بھارتی میڈیا ہو‘ حکمران یا سیاست دان‘ ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے‘ پاکستان کے بارے میں ان کا ہمیشہ معاندانہ اور جارحانہ رویہ رہا ہے۔ مٹی پر لکیر کھینچ کر پاکستان کا نام لے کر پیٹنے کو وطیرہ بنالیا گیا ہے۔ منڈھیر سیکٹر واقعہ کا الزام پاکستان پر دھرنا جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو چکا ہے‘ کیا اس پر بھارتی حکام‘ اپنے فوجیوں کے سر قلم کرنے کا الزام لگانے والا فوجی ترجمان اور اپنے کان کو چیک کئے بغیر ”دُڑکی“ لگانے والے سیاست دان اور بے اعتبار میڈیا اس بے بنیاد پروپیگنڈے‘ الزامات اور دھمکیوں پر پاکستان سے معافی مانگے گا؟ ان میں تو شاید اتنی اخلاقی جرا¿ت نہ ہو تاہم عالمی برادری کو اس کا ضرور نوٹس لینا چاہیے۔ پاکستان کی اس حوالے سے عالمی سطح پر بدنامی ہوئی‘ پاکستانی حکومت جو بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے سے جذبے سے سرشار ہے‘ اس واقعہ کو عالمی سطح پر بھرپور طریقے سے اٹھائے اور اپنے دشمن کو پسندیدہ قرار دینے کے عمل کو بجیرہ¿ عرب میں ڈبو کر مسئلہ کشمیر یو این قراردادوں کے مطابق حل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش‘ جدوجہد اور اقدامات کرے۔ مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے بغیر پاکستان اور بھارت میں ایسے ناخوشگوار واقعات اور تلخی ہمہ وقت جاری رہے گی۔ بھارت کے ساتھ اعتماد سازی کے یکطرفہ اقدامات لاحاصل رہیں گے‘ مذاکرات کو بھارت نے ایک مذاق‘ کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے۔سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے درست کہا ہے کہ ایسا امن عمل کس طرح دیرپا ثابت ہو سکتا ہے جو ایک گولی چلنے سے ہوا میں اڑ جائے۔مسئلہ کشمیر حقیقت میں دو ایٹمی ہتھیار سے لیس ممالک کے درمیان دنیا کا سب سے خطرناک تنازعہ ہے۔ خطے کے امن کیلئے لازم ہے کہ تنازعہ کا حل دونوں ممالک کے مابین تسلیم شدہ یو این کی قرارداد کے مطابق کرایا جائے۔