سیاستدان پرواز کا ماہر ہوتا ہے‘ اسے اقبالؒ کے شاہین کی طرح اونچی سے اونچی پرواز کرنا خوب آتا ہے۔ جب الیکشن کا سماں نظر آنے لگے تو اس کی قوت پرواز اور بڑھ جاتی ہے۔ نئے افق اور نئی سیاسی پارٹیاں اس کی منزلِ مقصود ہوتی ہے۔ اس پرواز سے سیاستدان کو نہ سردرد ہوتا ہے اور نہ اسے کسی قسم کی تکان ہوتی ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں بعض سیاسی ناسمجھ اسے لوٹا بننا کہتے ہیں۔ لوٹوں کے ڈھیر پر امریکہ مذہبی اجتماع سمجھ کر فائرنگ بھی کر دیتا ہے مگر سیاسی لوٹا ہمیشہ فائدے ہی میں رہتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں لوٹے کی اہمیت آغاز ہی سے رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اسے اپنے منشور بہ وزنِ منظور کا حصہ بنائے رکھا۔ سیاسی لوٹوں میں بڑے بڑے نام آتے ہیں‘ جنہیں گھومنے اور جھومنے میں یدِ طولیٰ حاصل رہا۔ جس طرح عامل چور پکڑنے کیلئے لوٹا گھماتے ہیں‘ اسی طرح سیاسی باوے ان لوٹوں کو کبھی چھانگا مانگا‘ کبھی مری اور سوات کی وادیوں میں گھماتے رہے۔ چور پکڑنے والا لوٹا تو منتر کے زور پر گھومتا ہے سیاسی لوٹا زر کے زور پر گھومتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل صدرِ پاکستان نے اپنے دورہ¿ ملتان میں سابق وزیر اعظم کو لوٹا ہونے سے بال بال بچانے کیلئے ان کے تمام مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ملتان ہی میں ایک اجلاس میں صدرِ مملکت نے ایک سیاستدان‘ جو اشاروں پر پارٹیاں بدلنے میں لوٹے کی حد تک مہارت رکھتے ہیں کو عزت دیتے ہوئے کہا کہ ایک ”لیڈر“ ہوا کرتے تھے‘ جہاں ان کے بھائی نے ان خبروں کی تصدیق کر دی‘ جو تاحال سینہ گزٹ میں محفوظ تھیں کہ وہ ایک بار پھر نئی اڑان کیلئے پرتول رہے ہیں۔
یہ لیڈر کبھی پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے‘ اس منصب سے انہیں اپنی امریکی ہم منصب ہیلری کلنٹن سے بے تکلفی پر ہٹا دیا گیا تھا۔ جب انہیں دوسری مسندِ وزارت پیش کی گئی تو وہ ایک مخفی اشارے پر پیپلز پارٹی کی چھتری چھوڑ کر عمران خان کی چھت کی منڈھیر جا بیٹھے۔ تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنما جناب نواز شریف صاحب سے شاید اس لئے ملاقات کر گئے تھے کہ آئندہ اس چھتری تلے پناہ لینے کا چانس بھی موجود رہے اور اب وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے عمران خان کے ساتھ ماحضر تناول نہ فرما سکے تاکہ بعد ازاں انہیں کوئی نمک خوری کا طعنہ نہ دے سکے۔ جبکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ کھانے کے بعد بہت سا میٹھا یا آئس کریم کھا لینے سے نمک کا اثر زائل کیا جا سکتا ہے۔
یہ نسخہ ہم بطور ”ڈاکٹر“ تمام لوٹوں اور سیاسی کبوتروں کیلئے ایڈوانس تجویز کرتے ہیں کیونکہ الیکشن سے پہلے بہت سے لوگوں کو نمک کا اثر زائل کرنے کا مسئلہ درپیش ہو گا۔ عمران خان بھی شاہ محمود قریشی کی سیاسی پرواز کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ ایک نجی محفل میں وہ موصوف کو اپنی ٹیم کا ”سلیم ملک“ بھی قرار دے چکے ہیں‘ سلیم ملک کی خوبی بیان کرتے ہوئے عمران خان نے انہیں بات بات پر رونے بسورنے والا اور روٹھنے والا قرار دیا۔ کرکٹ ٹیم میں وہ سلیم ملک کو بھگت چکے ہیں اور سیاسی ٹیم میں ان کی یادوں پر شاہ صاحب نے تازہ پانی چھڑک دیا ہے۔
آج کل سب سے مقبول چھتری (امریکی سروے کے مطابق) میاں نواز شریف کی ہے‘ جس پر ملک بھر سے ہر رنگ کے پرندے آ آ کر بیٹھ رہے ہیں اور نواز شریف صاحب بھی سوائے چند گھاک اور پرانے پرندوں کے سب پر اپنا جال ڈالنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ چند دن میں سیاسی آسمان پر رنگ برنگے پرندوں کی اڑانیں زور پکڑ جائیں گی۔ سیاستدانوں کے جال تیار ہیں اور وہ سیاسی پرندوں کو اپنے نشان کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کر دیں گے اور وطن عزیز کے سدابہار معصوم عوام ایک بار پھر ووٹ کی صورت میں ان پرندوں کو دانہ کھلا آئیں گے۔پرندے ووٹ کا دانہ کھا کر اپنا پیٹ بھر لیں گے اور خالی پیٹ عوام کے ہاتھ کیا آئے گا‘ اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے! طاہرالقادری بھی لمبی اڑان بھرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان کو کسی سیاسی پارٹی کی چھتری، چھترے اور چھت کی ضرورت نہیں، وہ امریکہ واہ اور آ فوج کی جگنی گا رہے ہیں۔