طاہر القادری اور الطاف بھائی کا انقلابی گٹھ جوڑ کا جائزہ

بادی النظر میں شیخ السلام علامہ طاہر القادری اور ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین نے تخت اسلام آباد کا تختہ الٹنے کیلئے لانگ مارچ کا گٹھ جوڑ اگرچہ غیر فطری لگتا ہے کیونکہ ہر دو شخصیات کی آڈیالوجی اور تحریک منہاج القرآن اور تحریک مہاجر قومی موومنٹ (جو آج کل ”مہاجر“ کی بجائے ”متحدہ“ کا روپ اختیار کر چکی ہے) کے مقاصد اور مینی فیسٹو ایک دوسرے سے اسی طرح دور اور ملاپ سے مجبور ہیں جس طرح ندی کے دو کنارے۔ شیخ السلام روحانی پیشوا اور دنیاوی اور سیاسی تخت و تاج کی ہوس سے بے نیاز دین اسلام کی سر بلندی کیلئے زندگی کو وقف کئے ہوئے ہیں اور دوسری طرف الطاف بھائی کی زندگی آغاز میں اپنے مہاجر بھائیوں کے حقوق کی حفاظت سے شروع ہو کر اب متحدہ قومی موومنٹ کی صورت میں بر سر اقتدار ہر حکومت میں شامل ہو کر پوری قوم کی خدمت کے فرائض ادا کر رہے ہیں اور اب ایک سیاسی قوت بن چکی ہے۔ لیکن پس پردہ کوئی نہ کوئی اور کہیں نہ کہیں ایسی مقناطیسی قدر مشترک ضرور موجود ہے کہ زندگی بھر ایک دوسرے سے ایک ملاقات کئے بغیر ایک نے کینیڈا میں بیٹھے ہوئے اور دوسرے نے لندن میں برسوں سے جلاوطنی میں بیٹھے ہوئے ایک ہی وقت میں پاکستان میں عام انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات نافذ کرنے کیلئے اسلام آباد کے خلاف لانگ مارچ کر کے قاہرہ کے الحریر سکوائر کو پاکستان پر نافذ کر کے ”عرب سپرنگ“ کو پاکستان گرین سپرنگ میں تبدیل کرنے کا عزم کر لیا ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اتنی بڑی دوررس انقلاب کی منصوبہ بندی بیٹھے بیٹھائے اچانک ظہور پذیر ہو جانا معنی خیز سوچنے کی بات ہے۔ انتخابی اصلاحات کے نام پر ”سیاست نہیں ریاست“ کو بچانے کیلئے لاہور سے اسلام آباد 40 لاکھ عوام کی قیادت کرتے ہوئے 14 جنوری کو لانگ مارچ کا یہ اجتماع پاکستان کے دار الحکومت میں خیمہ زن ہوتے ہی اپنے آپ کو پاکستان کی عوامی پارلیمنٹ قرار دیتے ہوئے انتخابات سے پہلے انٹرم گورنمنٹ کا بھی اعلان کر دے گی جو مستقبل میں ہونے والے انتخابات کے شیڈول کے بارے میں تمام متعلقہ امور کے بارے میں عوامی پارلیمنٹ کے فیصلوں سے قوم کو اعتماد میں لے گی۔
جب شیخ السلام نے پاکستانی عوام کو یہ خوشخبری سنائی کہ ایم کیو ایم کے قائد نے لندن سے یقین دہانی کرا دی ہے اور الطاف بھائی کی طرف سے تائید بھی ہو گئی کہ پاکستان کی حکمران پارٹی کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ لانگ مارچ میں شیخ السلام کا ساتھ دے گی تو سادہ لوح بھولے بھالے مسلمانوں کو باور کرایا گیا کہ جب اللہ تعالی کی طرف سے فتح اور نصرت کا پیغام ملتا ہے تو عوام کی فوج موج در موج بن کر لشکر اسلام میں شامل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ایم کیو ایم کی پورے سندھ سے شیخ السلام کے لشکر لانگ مارچ میں شامل ہونا نصرت خداوندی کا ثبوت ہے۔ عوام تو سادہ لوح ہوتے ہی ہیں لیکن ارباب اقتدار میں بھی کھلبھلی مچ گئی اور اپوزیشن کے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر منجھے ہوئے سیاستدانوں اور جیل کے پرانے ساتھیوں اور دانشوروں نے بھی یہ سوچنے کی زخمت گوارا نہ کی کہ شیخ السلام نے مہینوں پہلے جب پاکستان آمد اور مینار پاکستان لاہور عوامی اجتماع اور مقاصد آمد پاکستان کی منصوبہ بندی کا آغاز کیا تھا تو یہ ان کے اکیلے دماغ کی اختراع نہ تھا بلکہ یہ ایک طاقتور اجتماعی سوچ اور گہرے سٹرٹیجک سوچ کا نتیجہ تھا اور اس سوچ کے ابتدائی مرحلہ میں ہی الطاف بھائی اور ان کی متحدہ قومی موومنٹ کی شرکت کا بھی فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ جوں جوں اس ڈرامہ کے ہر سین اور ہر ایکٹ کے پردے اٹھتے گئے تو سوچی سمجھی پلاننگ کے مطابق سب چہرے بے نقاب ہوتے جائیں گے اور اس بڑے گلوبل ڈرامہ کے ہر ایکٹر کا کردار باری باری ظاہر ہوتا جائے گا۔ اس نوعیت کے بین الاقوامی سطح پر کھیلے جانے والے ڈرامہ میں مختلف کردارکے درمیان انفرادی سطح پر قدرے مشترک ہونا ضروری یا لازمی نہیں ہے۔ شیخ السلام اور قائد ایم کیو ایم کے درمیان کیا یہ قدرے مشترک کافی نہیں ہے کہ برطانیہ اور کینیڈا دونوں برٹش کامن ویلتھ کے بنیادی اراکین ہیں جس ناطے سے دونوں ممالک کے شہری ملک برطانیہ سے رشتہ وفا و اطاعت کے پابند ہیں۔ اسی طرح پاکستان بھی خود مختار اور آزاد مملکت ہونے کے باوجود برٹش کامن و ہیلتھ کا ایک ممبر ہے۔ ادھر برطانیہ یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ کا ایک دیرینہ ہم نسل ہم مذہب‘ ہم زبان اور ہر دکھ سکھ کا ساتھی و اتحادی ایک لحاظ سے انگ ٹوٹ ساتھی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کے بارے میں مشترکہ سوچ اور مشترکہ گلوبل سٹرٹیجی کا مشترکہ پاسبان اور ہمراز ہے۔
 تادم تحریر راقم یہ کنفرم نہیں کر سکا کہ 14 جنوری کو اسلام آباد میں ایک طرف منتخب قومی اسمبلی کے اجلاس اور دوسری طرف شیخ السلام کے طلب کردہ عوامی پارلیمنٹ کے اجلاس کے متضاد فیصلوں کی روشنی میں ٹکراﺅ کی صورتحال سے نپٹنے کیلئے صدر مملکت جو افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر بھی ہیں اپنے آئینی فرائض منصبی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کراچی کیمپ آفس سے ادا کریں گے یا ایوان صدر اسلام آباد سے وزیراعظم پاکستان اور وفاقی کابینہ کی رہنمائی فرمائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...