حضور پُرنور کی محبت سے مو¿منین کے قلوب لبریز ہیں۔ حُبِّ رسول سے سرتاپا سرشار ہستیوں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام مخلوقات محبت کرتی ہیں۔ وہ اس عالم فانی سے پردہ فرماجائیں‘ تب بھی ان سے مہر و محبت کا اظہار کیا جاتا رہتا ہے۔ آفتابِ ولایت حضرت پیر سید مہر علی شاہ جیلانیؒ ایک ایسی ہی جلیل القدر ہستی ہیں جن کے عشقِ رسول کی چھاپ اس مملکتِ خداداد پر اتنی ہی گہری اور نمایاں ہے جتنی کہ حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒاور حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے نظریات و افکار کی ہے۔ آپ کی شخصیت شریعت و طریقت کا ایک حسین اور جامع امتزاج تھی۔ آپ اپنے جد امجد غوث الاعظم حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ اور سلسلہ¿ چشت اہلِ بہشت کے سرتاج شہنشاہِ ہند الاولی حضرت خواجہ سید معین الدین حسن سنجری چشتی اجمیریؒ کے حقیقی جانشین تھے۔ فقر و درویشی کے انتہائی اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود آپ کی طبیعت میں حد درجہ عجز اور انکسار پایا جاتا تھا۔ فرماتے تھے کہ ”میں فقیر اور درویش اُسے سمجھتا ہوں جو فقر و روحانیت کے سات سمندر پی جائے مگر ہمسائے کو خبر تک نہ ہو۔“ آپؒ کے یہ الفاظ آپ کے ضبطِ حال پر دلالت کرتے ہیں۔ آپ کا ہر قول‘ ہر فعل قرآن و سنت پر مبنی ہوتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کی بات ہے۔ انگریز حکومت کا ایک بھرتی افسر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کرنے لگا ”صوبہ سرحد اور پنجاب کی اکثر مارشل قومیں آپ کی ارادت مند ہیں۔ اگر آپ انہیں ملک اور بادشاہ کی خدمت کےلئے فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب دیں تو نہ صرف مےرے محکمہ کی مشکلات بڑی حد تک آسان ہوجائیں گی بلکہ گورنمنٹ بھی بےحد مشکور ہوگی۔“ آپؒ نے اسے جواب دیا ”علمائے اسلام موجودہ حالات میں انگریزوں کی فوجی ملازمت کو جائز قرار نہیں دیتے۔ اگر کوئی شخص مجھ سے فوجی ملازمت کے متعلق دریافت کرتا ہے تو میں اُسے اِس کی شرعی حیثیت سے آگاہ کردیتا ہوں۔ آپ لوگ کسی مسلمان اہلِ علم سے توقع نہ رکھیں کہ وہ لوگوں کو خلافِ شرع کام کا مشورہ دے گا۔“ آپؒ ہندوستان کے مسلمانوں کی ملی و قومی امنگوں کے پایہ¿ تکمیل تک پہنچنے کے لئے ہمیشہ دعا گو رہا کرتے تھے۔ تحریک پاکستان کے مشہور رہنما‘ بے مثال شاعر اور روزنامہ ”زمیندار“ کے مدیر مولانا ظفر علی خان 1920ءمیں حضرت پیر سید مہر علی شاہ جیلانیؒ کی خدمت میں گولڑہ شرےف حاضر ہوئے اور آپؒ سے خلافت و ہجرت‘ ترکوں کے خلاف عربوں کی بغاوت اور شریف مکہ کا انگریزوں کے ساتھ گٹھ جوڑ جیسے اہم موضوعات پر گفتگو کی۔ جاتے وقت کہنے لگے ”جناب! میں تو اہلِ اللہ کے اس دربار میں مسلمانانِ ہند کےلئے سلطنت مانگنے آیا ہوں۔“ حضرت پیر سید مہر علی شاہ جیلانی صاحبؒ نے کچھ توقف کے بعد فرمایا: ”میں دعا کرتا ہوں‘ آپ بھی دعا کریں کہ اللہ سبحانہ¾ و تعالیٰ اس ملک کے مسلمانوں کو آزادی نصیب فرمائیں اور ایسی حکومت بخشیں جو ان کے دین کی خدمت کرسکے۔“ آپؒ کے فرزند حضرت سید غلام محی الدین شاہؒ المعروف ”بابوجی“ نے حصولِ پاکستان کی جدوجہد کے دوران اپنے تمام مریدین اور احباب کو مشورہ دیا کہ اس وقت مسلمانانِ برصغیر کی بہتری اسی میں ہے کہ مسلم لیگ کی مکمل اور متفقہ حمایت کی جائے۔ دورانِ ہجرت ہندو اور سکھ بلوائیوں کی طرف سے مسلمان مہاجرین کو بے دریغ تہہ تیغ کیا جانے لگا تو حضرت بابوجیؒ نے عظیم اسلامی روایات پر عمل کرتے ہوئے گولڑہ شریف کے غیر مسلم باشندوں کے جان و مال کی حفاظت کا نہ صرف پورا انتظام فرمایا بلکہ وقت آنے پر انہیں اپنی ذاتی نگرانی میں بھارت رخصت کیا۔
مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبالؒ آپؒ سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ جن دنوں وہ میکلوڈ روڈ لاہور پر رہائش پذیر تھے‘ ایک شام کوئی شخص بڑے سوز و گداز کے ساتھ نعت رسول مقبول پڑھتا چلا جارہا تھا۔ نعت شریف کے بول تھے
اَج سک متراں دی ودھیری اے
کےوں دِلڑی اداس گھنیری اے
لُوں لُوں وچ شوق چنگیری اے
اَج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں
علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے ملازم سے کہا کہ فوراً جاﺅ اور اس شخص کو بلا کر گھر لے آﺅ۔ وہ شخص آگیا تو فرمائش کرکے اس سے بڑے ذوق و شوق سے پوری نعت سنی۔ جب نعت کا مندرجہ ذیل مقطع سنا
سُب±حَانَ اللّٰہ مَا اَج±مَلَکَ مَا اَح±سَنَکَ مَا اَک±مَلَکَ
کِتھے مہر علی کِتھے تےری ثنا
گستاخ اکھےں کتھے جا اَڑیاں
تو علامہ محمد اقبالؒ حضرت پیر سید مہر علی شاہ کا نام سن کر بے اختیار پکار اٹھے کہ اب معلوم ہوا کہ اِس کلام میں اتنا بے پناہ درد و اثر کیوں ہے۔ جناب مجےد نظامی چونکہ اولیائے کرام سے خصوصی عقیدت رکھتے ہیں‘ لہٰذا ان کی ہدایت پر نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ ان نفوسِ قدسیہ کی دینی‘ علمی و روحانی خدمات کو اجاگر کرنے اور ان کی پاکیزہ تعلیمات کے فروغ کیلئے تسلسل کے ساتھ محافل منعقد کرتا رہتا ہے۔ حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے بھی سیمینار کی صورت ایک پُرکےف محفل کا انعقاد ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘ لاہور میں کیا گیا جس کی صدارت حضرت پیر سید غلام معین الحق جیلانی نے کی جبکہ محترم مجید نظامی نے بطور خاص اس میں شرکت کی۔ سیمینار کے آغاز میں قاری خالد عثمان نے انتہائی خوبصورت لہجے میں قرآن مجید کی تلاوت کی جبکہ عبدالصمد گولڑوی نے حضرت پیر سید غلام معین الحق گیلانی کا مندرجہ ذیل نعتیہ کلام نہاےت دل سوز انداز میں سناکر حاضرین پر وجد کی کیفیت طاری کردی
ہے معین غلام جن کا‘ ہیں وہ بحر و بر کے والی
دو جہاں میں ایسا آقا کوئی تھا‘ نہ ہے‘ نہ ہوگا
آپؒ سچے عاشق رسول تھے جن کی ساری زندگی عقیدہ¿ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ سے عبارت تھی۔ حبِّ رسول کریم ان کی اولاد اور متوسلین کا بھی وصفِ خاص ہے اور مندرجہ بالاشعر اسی محبت کا مظہر ہے۔ پروگرام کے اختتام پر حضرت پیر سید غلام معین الحق گیلانی نے اجتماعی دعا کرائی۔ سیمینار میں نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی‘ خواجہ قطب الدین فریدی‘ علامہ محمد صادق قریشی‘ ڈاکٹر سید ریاض الحسن شاہ گیلانی ایڈووکیٹ‘ مولانا محمد شفیع جوش‘ پروفیسر غلام مصطفی‘ محمد محسن بلال اور شیخ عبدالحمید نے بھی خطاب کیا جبکہ نظامت کے فرائض حافظ محمد حسین گولڑوی نے بڑی عمدگی سے نبھائے۔