”کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں“

برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں جان و مال کی قربانیاں دیکر وطن عزیز پاکستان حاصل کیا تھا۔ گذشتہ کچھ سالوں سے وطن عزیز کے استحکام کو متزلزل کرنے کے سلسلے میں بلوچستان میں تخریبی سرگرمیاں بھی جاری ہیں جن میں ”را“ اور موساد جیسے بدنام زمانہ خفیہ ایجنسیوں کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آج حالت یہ ہے کہ جس ملک نے نام دیا شہرت و عزت دی وہی بیرون ملک بیٹھ کر اپنے وطن کی جڑیں کاٹنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کئی سالوں سے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے برطانیہ میں ”شاہانہ زندگی“ کے مزے لے رہے ہیں اور مہینے میں کئی بار ”ٹیلی فونک “ خطاب کے جوہر دکھاتے چلے آرہے ہیں۔ ستمبر 2013ءالطاف حسین نے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو قائم ہوئے 66برس گزر چکے ہیں اور ملک کی گاڑی انتظامی لحاظ سے کبھی ون یونٹ، کبھی دو یونٹ اور 1971ءکے بعد چار یونٹ میں منقسم کھڑی ہے اور قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم تمام نسلی ولسانی اکائیوں میں احساس محرومی کے خاتمے کیلئے فی الفور نئے صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور اب نئے سال کی پہلے ہفتے میں لندن سے کراچی اپنے ”ٹیلی فونک“ خطاب میں کہا اگر پیپلز پارٹی والے سندھ کے عوام کو ایک نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے تو پھر بہتر ہوگا کہ سندھی عوام کیلئے سندھ ون اور جنہیں پیپلز پارٹی سندھی تسلیم نہیں کرتی ان کیلئے صوبہ سندھ ٹو بنادیں۔ آگے چل کر موصوف فرماتے ہیں ”سندھ ون اور سندھ ٹو دونوں سندھ دھرتی کی خدمت کریں“ جبکہ الطاف حسین نے اس سے پہلے حیدرآباد میں جلسے سے خطاب میں بھی کہا تھا کہ شہری سندھی آبادی پسند نہیں ہے تو پھر اردو بولنے والے سندھی آبادی کے لئے علیحدہ صوبہ بنایا جائے جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول کا سماجی ویب سائٹ ٹوئیٹرپر فوراً ردعمل آگیاتھا کہ ”مرجائینگے مٹ جائینگے“ لیکن سندھ کسی کے ہاتھوں میں جانے نہیں دینگے۔ بعد ازاں سندھ کی قوم پرست جماعتوں کا بھی سخت ردعمل سامنے آیا جس کے نتیجہ میں سندھ کے کئے شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں ہوئیں۔سندھی رائٹرز اور تھنکرز فورم نے بھی الطاف حسین کے بیان پر سخت ردعمل کیا اور برطانوی ہائی کمیشن کو یادداشت نامہ پیش کرنے کا عندیہ دیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ لوگوں کا بھڑکانے کے الزام میں الطاف حسین کیخلاف کارروائی کی جائے“ ۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی حالیہ بیانات کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں نے مخالفت ہی کی ہے اور حقیقت بھی ہے کہ اس وقت سب کو مل کر ملک کے استحکام ترقی و خوشحالی کے لئے تن من دھن سے کام کرنا چاہیے تاکہ وطن عزیز جو مختلف بحرانوں کی زد میںہے اس سے نکل آئے ایسے میں الطاف حسین کے بیانات کی کوئی محب وطن حمایت نہیں کرسکتا۔ اگر ان کو وطن اوراسکے عوام سے اتنی ہی دلچسپی ہے انکا خیال ہے تو وطن واپس آکر اسکی خدمت کریں تاکہ بیروں ملک مقیم رہ کر ”بیانات “ دیتے رہیں۔ آج بھتہ خوروں ، ٹارگٹ کلنگ اور سماج دشمن عناصر کے خاف سندھ خصوصاً کراچی میں آپریشن جاری ہے اور جیسے جیسے قانون شکنوں کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے الطاف حسین کو شاید اس سے تکلیف محسوس ہو رہی ہے کیونکہ دوسری طرف برطانیہ میں بھی انکے ستارے گردش میں آرہے ہیں اور ان کو صرف یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ یہ شاہانہ زندگی کہیں ختم نہ ہوجائے۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ ایسے بیانات دینے والوں کے خلاف زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات کرے کیونکہ وطن عزیز کے خلاف کام کرنے والے کسی رو سے رعائت کے مستحق نہیں اور اس حوالے سے تو ارباب اختیار ہے یہی کہا جا سکتا ہے کہ
”کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں“

ای پیپر دی نیشن