اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) یٰسین شاہ سمیت دیگر 35 لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ ملک دشمن عناصر اور حکومت دونوں آئین پر عملدرآمد نہیں کر رہے۔ عدالتی حکم کے باوجود سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کیا جا رہا، آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت کسی شخص کو غیر قانونی حراست میں نہیں رکھا جا سکتا، عدالت نے وزیراعظم کے سیکرٹری، سیکرٹری قانون اور چیف سیکرٹری خیبر پی کے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے معاملے پر رپورٹ 17 جنوری تک طلب کر لی۔ کیس کی مزید سماعت 20 جنوری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جس پر عدالت نے عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت نے پینتیس افراد کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا جن میں سے سات افراد کو پیش کیا گیا باقی اٹھائیں افراد کے متعلق رپورٹ طلب کی گئی تھی۔ ہمارے حکم کو یکسر نظرانداز کیا گیا ہے، دس منٹ کے اندر اعلیٰ حکام سے پتہ کر کے بتائیں کہ لاپتہ افراد سے متعلق کمیٹی کا کیا بنا۔ اس دوران عدالت نے مختصر وقفہ کیا۔ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے حکومت کی جانب سے خفیہ رپورٹ جمع کرائی جس پر دوبارہ عدالت نے عدم اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ اس میں کوئی نئی بات نہیں، جولائی سے اس کیس میں وقت طلب کیا جا رہا ہے ہم بار بار کہہ رہے ہیں اس بارے میں سنجیدہ رویہ اختیار کیا جائے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ حکومت اس بارے میں جلد قانون سازی کرے، ہمارے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں کہ رات کے اندھیرے میں بھی قانون منظور ہوئے ہیں۔ حکومت آئین پر عملدرآمد نہیں کرے گی تو کوئی بھی نہیں کرے گا۔ ہم قانون سازی نہیں کر سکتے ورنہ اس مسئلے کو بھی حل کر لیتے۔ عدالت وزیراعظم کو نہیں بلا رہی پہلے ان کے سیکرٹری سے جواب طلب کر رہی ہے۔ عدالت نے وزیراعظم کے سیکرٹری، سیکرٹری قانون اور چیف سیکرٹری خیبر پی کے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر مزید حکم جاری کریں گے۔ ثناء نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے 35 لاپتہ افراد سے متعلق فیلہ پر عملدرآمد نہ کرنے پر وفاق اور خیبر پی کے حکومت سے 17 جنوری کو جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر حکام بالا قانون کی پابندی نہیں کریں گے تو نہ صرف لاقانونیت بڑھے گی بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ شہ ملے گی کہ وہ قانون کو نہ مانیں، سرکار اور عدالت دونوں آئین کے پابند ہیں۔ آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے مالاکنڈ سے فوج کے ذریعے اٹھائے جانے والے 35 لاپتہ افراد کے مقدمے میں وزیراعظم نواز شریف سے بطور چیف ایگزیکٹو فیڈریشن‘ گورنر خیبر پی کے اور وزیر اعلیٰ سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد رپورٹ جبکہ لاپتہ افراد کے حوالے سے قانون سازی نہ کرنے پر وفاقی سیکرٹری قانون و انصاف‘ چیف سیکرٹری اور سیکرٹری برائے وزیراعظم کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے 17 جنوری تک جواب طلب کیا ہے مقدمے کی سماعت 20 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس میں کہا مسلح افواج اگر قانون کی پاسداری نہیں کریں گی تو پھر کوئی بھی نہیں کرے گا‘ انہیں آئین و قانون کاپابند بننا ہوگا‘ غیر آئینی اور غیر قانونی کام کرکے ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا جارہا ہے‘ یہ سب آئین و قانون کی پاسداری نہ ہونے سے ہورہا ہے‘ کوئی بھی ادارہ آئین و قانون سے بالاتر نہیں‘ قانون سب کیلئے برابر ہے‘ کوئی ادارہ خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے ورنہ معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔ عدالت نے کہا کہ عدالت نے 10 دسمبر 2013ء کو حکم سات روز میں بندے پیش کرنے کا حکم دیا تھا‘ یٰسین شاہ سمیت 35 لاپتہ افراد کو زبردستی اٹھانے میں مبینہ طور پر ملوث فوجی افسروں اور سویلین افسروں کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، اس کی رپورٹ رجسٹرار کو ارسال کی جائے۔ عدالتی حکم کے باوجود رپورٹ جمع کروائی گئی ہے نہ ہی عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیا گیا ہے‘ حکومت نے معاملے کے حل کیلئے کمیٹی قائم کی جس کے کام کرنے کے حوالے سے تاحال کوئی پیشرفت رپورٹ نہیں دی گئی صرف سات افراد پیش کئے گئے‘ لوگوں کو زبردستی اٹھانے کے معاملے پر مؤثر قانون سازی کے لئے کہا گیا تھا مگر اس حوالے سے بھی کوئی رپورٹ نہیں دی گئی، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑادیا گیا‘ کسی بھی شخص کو جبری طور پر اٹھانے اور قید میں رکھنے کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں۔ فوج نے بندے اٹھائے تھے اور یہ بات ثابت بھی ہوئی تھی‘ عدالت نے چیف ایگزیکٹو کی مداخلت کے بعد معاملے کے حل ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے حکم دے رکھا ہے عدالتی حکم کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔ اس طرح کی درخواست پہلے بھی دائر کی گئی تھی۔ طارق کھوکھر نے بتایا کہ درخواست آمنہ مسعود جنجوعہ نے دائر کی تھی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے چیمبر میں آرڈر کر دیا تھا اب اس کا باقاعدہ بنچ میں بھی آرڈر جاری کردیتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ سات روز میں سب کچھ کرنا تھا آپ نے نہیں کیا‘ کمیٹی کب بیٹھے گی‘ کمیٹی کیا کرے گی، کیا نہیں کرے گی۔ جولائی 2013ء کا معاملہ چل رہا ہے پتہ نہیں لاپتہ افراد کا کیا بنے گا۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ہم نے بار بار وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا تھا کہ آرٹیکل 10/9 کا خیال رکھا جائے جس کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر کسی قانون کے حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ آئین و قانون کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ آرٹیکل 5 کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ دوسرے تو قانون پر عمل کریں وہ نہ کرے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر فورسز آئین کی پاسداری نہیں کریں گی تو کوئی بھی نہیں کرے گا انہیں بھی پاسداری کرنا ہوگی اور اس میں کس کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ متعلقہ حکام جواب داخل کریں‘ مزید احکامات ان جوابات کی روشنی میں جاری کئے جائیں گے۔ ہمارے حکم پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اٹارنی جنرل آفس حکومت سے بات کریں۔ ہم نے آئین و قانون کی بات کرنی ہے ہمیں صرف یہی ایک طریقہ آتا ہے۔