اسلام آباد سے ایک خبر ہے کہ۔”عمران خان کی سابقہ بیوی جمائما نے عمران خان کی دوسری شادی پر اُن کے لئے۔”نیک خواہشات“۔ کا اظہار کِیا ہے اور پیغام بھجوایا ہے کہ۔” مَیں چاہتی ہُوں کہ عمران خان اور اُن کی نئی دُلہن لندن میں میرے گھر آئیں۔ مَیں اُن کی دعوت کر کے خُوشی محسوس کروںگی“۔ جِس اخبارنے یہ خبر شائع کی ہے ¾اُس کی سُرخی ہے کہ ”جمائما نے عمران خان کو ہنی مُون کے لئے برطانیہ آنے کی دعوت دے دی“۔ حالانکہ خبر کے متن میں عمران خان اور اُن کی Honey" "کے ہنی مُون کا ذِکر نہیں تھا۔صِرف دعوت کی بات تھی۔ اِسے کہتے ہیں۔
”بڑھا بھی دیتے ہیں ¾ کچھ زیبِ داستاں کے لئے“
اگر عمران خان نے جمائما کو طلاق دینے سے پہلے(اُس کی موجودگی میں) ریحام خان سے شادی کی ہوتی تو ریحام خان اُس کی سَوت(سوتن یا سوکن) کہلاتی۔ لیکن اب دونوں میں۔” سَوتا پے“۔ کا رِشتہ نہیں ہے ¾ البتہ ریحام خان اب جمائما اور عمران خان کے سگے بیٹوں قاسم خان اور سلیمان خان کی سوتیلی ماں بن گئی ہے۔ پہلی بیوی کی موجودگی میں جب ایک شخص نے اُسے ۔”سوتاپا“۔ دینے کے لئے اپنی باندی(نوکرانی) کو دوسری بیوی بنا لِیا تو شاعر نے پہلی بیوی کے ترجمان کی حیثیت سے کہا کہ۔۔۔۔۔
مجھے تو دینے کو سوتاپا ¾ لائے تھے باندی
ملاﺅں خاک میں ¾ اِس نو بہار کی صُورت
لیکن ریحام خان (عمران خان کی) ۔”باندی“۔ نہیں۔ نجِیب اُلطرفین پختون ہے۔ عمران خان سے شادی سے پہلے ایک ۔ ٹی ۔ وی۔ پروگرام میں جب ایک سیاستدان( نبیل گبول) نے اُسے شادی کی پیشکش کی تو ریحام خان نے ٹکاسے جواب دِیا اور کہا کہ۔” ہم پختونوں میں ہی رشتہ داری کرتے ہیں“۔ یہ واقعہ اُس کے بعد کا جب عمران خان نے ایک پختون عالمِ دِین(مولانا فضل اُلرحمن) کے پیچھے نماز پڑھی۔ عمران خان نے یہودی نژاد جمائما کو طلاق بھی دے دی تھی لیکن مولانا فضل اُلرحمن انہیں۔” یہودیوں کا ایجنٹ ہی کہتے تھے اور جواب میں عمران خان بھی مولانا کو یہ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے کہ ۔ ”مولانا فضل اُلرحمن کے ہوتے ہُوئے یہودیوں کو کسی اور ایجنٹ کی کیا ضرورت ہے؟“۔ اب دونوں پختون لیڈروں میں ایک دوسرے کو نہ چھیڑنے کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ پختون خوا مِلّی عوامی پارٹی کے قائد جناب محمود خان اچکزئی کو بھی مبارک ہو۔
” کیا واقعی جمائما نے عمران خان اور ریحام خان کو اپنے گھر میں ہنی مُون بنانے کی دعوت دی ہے؟۔ پھر سوال یہ پیدا ہو گا کہ عمران خان اپنی دُلہن کے ساتھ اپنی مُطلقّہ بیوی کے گھر میں۔”ہنی مُون“۔ منا سکتے ہیں؟۔ فرض کِیا کہ ۔(اپنے بچوں کی خوشنُودی کے لئے) جمائما کے گھر ہنی مُون منا لیں تو کیا جمائما کو ¾ عمران خان اور ریحام خان کا ۔”سہولت کار“۔ کہا جائے گا؟۔ معزز قارئین و قارِیات!۔ آپ تصوّر کریں کہ۔”Honymoon“۔ کی اگلی صبح جب جمائما ۔ اپنے سابقہ شوہر کو باداموں والے گرم گرم دُودھ کا گلاس پیش کرے گی تو لندن میں کبھی کبھی ابھرتا سُورج (Sun) کیوں نہیں شرما جائے گا؟۔ بے شک وہ دِن ۔"Sunday" ۔ہُوا یا کوئی اور ۔"Day" ۔
اُس منظر کے جائز اور ناجائز ہونے کا فیصلہ عمران خان کے نکاح مُفتی سعید صاحب کریں گے یا پھر ( مستند مُفتی نہ ہونے کے باوجود) ۔ مولانا فضل اُلرحمن؟۔ میرا خیال ہے کہ عمران خان اور ریحام خان کا نکاح پڑھانے کے بعد (نکاح خوان کی حیثیت سے) ۔ مُفتی سعید صاحب کی ۔"Market Value" پہلے سے زیادہ بڑھ جائے گی۔کم از کم پاکستان تحریکِ انصاف کے کنوارے ¾ رنڈوے اور طلاق یافتہ جوان اور مُعمر اصحاب مُفتی سعید صاحب سے ہی اپنا اپنا نکاح پڑھوائیں گے اور اُن کے مدرسے کے بچوں کو کھانا بھی کھلائیں گے۔ پھر فخر سے کہا کریں گے کہ” جِن مُفتی سعید صاحب نے کپتان عمران خان کا نکاح پڑھایا تھا ¾ انہوں نے ہی میرا نکاح پڑھایا ہے“۔ 9 جنوری کو مولانا فضل اُلرحمن نے لاہور میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے ملاقات کی۔ اخبارات میں شائع ہونے والی 4 کلر تصویر میں میاں شہبا زشریف کوٹ پتلون اور ٹائی میں ننگے سر ہیں اور مولانا کالے رنگ کی شیروانی اور کالے رنگ ہی کی شلوار قمیض میں"Colourfull" ۔ پگڑی باندھے ہُوئے ۔ کالے رنگ کے کپڑوں سے مجھے پنجابی کے پہلے شاعر اور چشتیہ سِلسلے کے ولی بابا فرید گنج شکرکا یہ شعر یادآگیا کہ۔۔۔۔۔
فریدا! کالے مَینڈے کپڑے ¾ کالا مَینڈا ویس
گُنِہیں بھریا میں پِھراں ¾ تے لوک کہن درویس
یعنی ۔ اے فرید!۔ مَیں نے کالے کپڑے پہن رکھے ہیں اور میرا بھیس بھی کالا ہے۔ مَیں گُناہوں سے بھرا ہوں۔ پھر بھی لوگ مجھے درویش کہتے ہیں۔بابا فرید شکر گنج ؒ۔خاندانِ غلاماں کے بادشاہ غیاث اُلدّین بلبن کے داماد تھے۔ وہ جو چاہتے اپنے سُسر بادشاہ سے مانگ سکتے تھے لیکن صِرف اور صِرف اللہ تعالیٰ پر توکّل کرنے والے غیر اللہ سے کہاں مانگتے ہیں؟۔ میاں شہباز شریف اور مولانا فضل اُلرحمن کی ملاقات کی تصویر میں میاں صاحب اور مولانا صاحب کے چہروں پر کھیلتی ہُوئی مُسکراہٹ سے پتّہ چلتا ہے کہ۔” معاملات پھر طے پا گئے ہیں یعنی ۔”اجے وی ڈُھلّے بیراں دا کُجھ نئیں وِگڑیا“۔ میاں شہباز شریف نے مولانا فضل اُلرحمن کے تحفظات دُور کرنے کی یقین دہانی کرادی اور وزیرِ اعظم نواز شریف سے ملاقات کرانے کا وعدہ بھی۔ مولانا فضل اُلرحمن نے کہا کہ” ہمارے تحفظات دُور کردِیئے جائیں تو ہم بھی لچک دکھائیں گے“۔ حالانکہ مولانا صاحب کے لئے لچک دکھانے کی بات کرنا ضروری نہیں تھاکیونکہ مولانا فضل اُلرحمن نے ہر دَور میں۔"Give And Take" ۔ کی سیاست کر کے ۔”لچک دار“۔ سیاستدان کا کردار ادا کِیا ہے۔ شاعر سیاست نے اپنے ایک۔”سیاسی ماہیا“ میں کہا ہے۔۔۔۔۔
”چل سانگلہ ہِلّ ماہِیا
"Give And Take" کریئے
اَیویں سُکّے تے نہ مِل ماہِیا“
عورت کی سربراہی کو ”خلافِ شریعت“ قرار دے کر مولانا فضل اُلرحمن نے”شریعت کے نفاذ کے لئے “ وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو سے "Give And Take" کِیا تھا۔ اُس دَور کے وزیرِ داخلہ میجر جنرل ( ر) نصر اُللہ خان بابر کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ” مَیں نے وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو بتادیا ہے کہ۔”اگر آپ مولانا فضل اُلرحمن کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی چابِیاں بھی دے دیں تو بھی وہ خُوش نہیں ہوں گے“۔ اخبار نوِیسوں نے مولانا صاحب سے پُوچھا کہ ”آپ جنرل( ر) نصیر اُللہ خان پر ہتکِ عِزّت کا مقدمہ کیوں نہیں کرتے؟“ تو مولانا فضل اُلرحمن نے کہا کہ ”مَیں نے یہ معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑ دِیا ہے“۔اِس وقت مولانا فضل اُلرحمن وفاقی وزیر کے برابر مراعات کے ساتھ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اور اُن کی۔ جے یو آئی (ف ) کے مولانا محمد خان شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ¾ مولانا عبداُلغفور حیدری اور جناب اکرم دُرّانی وفاقی وزراءاِس کے باوجود”محب ِ وطن طالبان“ کے اِن ۔”سہولت کاروں“کے اور کیا تحفظات ہیں؟۔شریف برادران کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ¾ کیا دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ”لچک دار سیاستدانوں“۔ کی ضرورت ہے یا نہیں؟