ایران و سعودیہ اور انجانے خوف!

ابھی تو دھیان ادھر سے نہیں ہٹا تھا کہ وہ لوگ جنہیں پاکستان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ محبت تھی انہیں بنگلہ دیش میں مقتل کی نذر کیوں کر دیا گیا؟ وہ الگ بات ہے کہ وہ کس دھج سے مقتل ہو گئے۔ افسوس کہ دھیان کو ادھر ایران سعودیہ کشیدگی پر بھی لگنا پڑا۔ زخم تو ابھی وہ بھی مندمل نہیں ہوئے تھے جو مرسی کو سبکدوش کرکے دئیے گئے۔ پھر یہ گھاؤ تو تازہ ہی رہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کے ساتھ ظالم وہی کرتا ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کرتا ہے۔ کیا کروں؟ کیا کروں کہ یہ ہمیشہ دل میں رہتا ہے کہ ننھی سی جدوجہد کے بعد مشرقی تیمور (2002) کو انڈونیشیا سے الگ کرا کے خود مختار کر دیا جاتا ہے اور سوڈان کے بطن سے جنوبی سوڈان (2011) جنم لے لیتا ہے۔ واضح رہے کہ دونوں میں عیسائیت غالب ہے اور ریفرنڈم کے نتیجہ سے خود مختاری ملی جس سے کشمیر تاحال محروم ہے۔
ہاں! بات یہی ہے کہ ’’ایک دو زخم نہیں‘ جسم ہے سارا چھلنی… درد بے چارہ پریشاں ہے کہ کہاں سے اٹھے؟‘‘… اس رنج و الم کی جانب بعد میں آتے ہیں پہلے تذکرہ ایک انجانے خوف کا:
پچھلے پیر (4 جنوری 2016ئ) کو راقم رخت سفر باندھے لاہور سے ملتان کی جانب رواں تھا کہ اوکاڑہ اور ساہیوال اضلاع کے درمیان پاک فوج کا ایک قافلہ بھی رواں دواں تھا ظاہر قافلے میں کچھ جوانوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ مخصوص گاڑی میں بیٹھ کر سب سے آگے اور پیچھے بندوقیں تانے بیٹھے رہے ہیں۔ میں خود ڈرائیو کر رہا تھا اور چند منٹ مجھے ’’شاہراہی نزاکتوں‘‘ کے سبب تنی ہوئی بندوقوں میں (پیچھے) چلنا پڑا تاوقتیکہ آگے نکلنے کا موقع اور راستہ نہ ملا۔ لیکن ان بندوقوں کا ذرا خوف نہ تھا۔ تنی ہوئی یہ بندوقیں ایسا ہی احساس تھا جیسے محافظوں نے گویا اپنوں نے دشمنوں اور دہشت گردوں کے خلاف تلواریں بے نیام کر رکھی ہوں۔ جتنے منٹ یا لمحے ان بندوقوں کے سائے تلے گزرے پھر دل میں یہ بھی خیال رہا کہ رب کعبہ کا فرمان ہے کہ:
تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت پھر قوت کی تیاری کروا اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی‘ کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سواروں کو بھی‘ جنہیں تم نہیں جانتے‘ اللہ انہیں خوب جان رہا ہے (الانفال) دل میں یہ بھی دعا تھی کہ امن اور حفاظت کے لئے بیک وقت کوشاں، علاوہ ازیں ان دیکھے داخلی دشمنوں یعنی دہشت گردوں اور سرحد پار جانے پہچانے دشمنوں کے خلاف برسرپیکار پاک فوج سرخرو ہو۔ وہی 1965ء اور 1971ء والا جذبہ عہد شباب پر لگا کہ پاک فوج کو سلام! اتفاق کہئے کہ ’’حسن اتفاق‘‘ پھر ملتان سے لاہور واپسی پر پتوکی اور پھول نگر کے درمیان ایک اور قافلے سے آنکھیں دوچار ہوئیں تاہم یہ قافلہ رینجرز کے جوانوں اور افسران پر مشتمل تھا۔ ایک دفعہ پھر بندوقوں کے منہ کا سامنا ہوا مگر اس دفعہ خوشگواری کے عناصر کم تھے۔ جوان یہ بھی اپنے تھے اور مخلص بھی لیکن یکایک کراچی کی بدانتظامی اور شورش نے دستک دے، ساتھ ہی بلوچستان کے کچھ علاقوں کی صورت حال نے دماغی دروازہ کھٹکھٹایا، دھیان ایک انجانے خوف کی طرف پلٹ گیا۔ خیال، دی پاکستان رینجرز آرڈیننس 1959ء یا آرٹیکل 147 و 148 (1973) کی طرف نہیں گیا اور نہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء اور تحفظ پاکستان آرڈیننس 2014ء کی جانب گیا، دھیان گیا تو اُس ’’موساد‘‘ اور ’’را‘‘ کی طرف جنہوں مخصوص خطوں کو خراب کرنے کی پاداش میں گلوبل ویلج کو خطرے کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ اقوام متحدہ نے بھی دانستہ و نادانستہ ان پر توجہ نہ دی۔ انڈیا اور اسرائیل کی ہٹ دھرمیوں، بدتمیزیوں اور نافرمانیوں کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا، فلسطین اور کشمیر کے نہتے لوگوں پر کئے جانے والے ظلم و ستم کو ہمیشہ فراموش کیا گیا۔ اقوام متحدہ میں پاس ہونے والی قراردادوں پر اُس طرح عمل درآمد نہ کرایا گیا جس طرح انصاف کے تقاضوں کا تناظر تھا۔ اس طرح اُس گلوبل ناانصافی نے جنم لیاجس کی پاداش میں کہیں تحریکوں نے اور کہیں دہشت گردیوں نے جنم لیا۔ کہیں کوئی افغانستان تپتا رہا اور کہیں کوئی شام، لبنان اور مصر سلگتا رہا اور کہیں کشمیر میں خون کی ہولی رواج بنتا چلا گیا پھر شیوسینا کو بھارت میں کھلا چھوڑا ہوا ہے جس کی بدمعاشی کو دوام ہے! آخر کیوں؟
جی! بھارت ہی کو دیکھ لیں اُسے اس خطے میں چوہدری بنانے کی آرزو امریکہ، امریکی سی آئی اے، اسرائیلی موساد اور بھارتی را کی ہے۔ را کراچی اور بلوچستان میں موساد کی سہولت کار ہے۔ را افغان پاک بارڈرز پر افغان علاقوں میں جلتی پر تیل ڈالنے کے لئے مصروف عمل ہے۔ جب اپنے ہی دام میں صیاد آگیا، جب نریندر مودی کو بہار میں شکست کا سامنا ہوا، جب معلوم ہوا کہ نہ وہ واجپائی کے نقش قدم پر ہے اور نہ اُس میں کانگرس کی سی لچک ہے، نہ اُس میں سیکولر ازم کی جھلک ہے یعنی وہ مودی جب بنگلہ دیش میں ایکسپوز ہوا اور اُس نے پاکستان کے خلاف مکتی بانی کو اپنا ہم نوا قرار دیا اور واضح طور پر دہشت پسندانہ، متکبرانہ اور غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل اپنایا تو وہ داخلی اور خارجی سطح پر تنقید کا نشانہ بن گیا۔ پھر اُسے خیال آیا کہ پاکستان کے ساتھ ’’اچانک ڈپلومیسی‘‘ سے عزت بحالی کی جانب بڑھا جائے۔ جب اچانک ’’ماں ڈپلومیسی‘‘ اور ’’محبت ڈپلومیسی‘‘ کی جانب وہ بڑھا تو یہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی موقف کی جیت تھی اور جیت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت کشمیر کو انصاف فراہم کرے گا یا ایسے ہی ایک ’’ڈھنگ پٹائو ڈپلومیسی‘‘ ہی رہے گی۔ پٹھان کوٹ کے معاملہ میں پاکستان سیاسی اور عسکری قیادت نے اصول پسندی کی انتہا کردی اور بھارت سے ہر قسم کے تعاون کو عملی جامہ پہنانے کا سوچا اور سمجھا۔ کیا کبھی بھارت بھی ہٹ دھرمی پر مبنی ڈیم بنانے اور پاکستان کے پانیوں پر قبضے کی روش ترک کرے گا؟ ان سنگین جرائم کو کیا ہم بھول جائیں۔
آج کی ایک اہم اور بہت ضروری بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے وہ چند سیاستدان، مذہبی رہنما اور دانشور جو ایران کی محبت کے شوق میں یا کچھ سعودیہ کی الفت کے ذوق میں جلتی تعلقات کی خرابی کو ہوا دے رہے ہیں وہ یہ ذہن میں رکھیں کہ پاکستان کسی ’’پارٹی‘‘ کا نام نہیں قیادت کا نام ہے۔ ہمیں وہ کردار ادا کرتا ہے جو اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد اور او آئی سی کا کردار سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ادا کیا تھا۔ ہمارا منصب عادل کا ہے، دھڑے کا نہیں! یاد رکھئے، ایران ہم سب سے علیحدہ ہو گیا تو امریکہ اُسے اپنا بنالے گا۔ اگر ایران کو ہم سب اپنا بنا لیتے ہیں تو امت مسلمہ مضبوط ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سعودیہ ہماری جان اور رگ و پے ہے ہم اُسے بھی کبھی کہیں بھول نہیں سکتے لیکن ہمیں ایک ہوں مسلح حرم کی پاسبانی کے لئے والی طرز اپنانی ہے۔ سعودیہ اور ایران کو اکٹھے بٹھانا ہے۔ یہ آج ماضی سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے آنے پر میاں نواز شریف نے جمہوری ملک کے سربراہ، انصاف پسند، دوست اور مخلص دوست کا سا رویہ اپنا کر وقت کی نزاکت، اہمیت اور اصلیت کو سمجھا ہوا۔ بھلے ہی عادل الجبیر تھوڑے حیران اور تھوڑے پریشان ضرور ہوئے ہیں لیکن اس وقت پاکستان کا موقف یہی بنتا تھا۔ جذباتی اور زبانی جمع خرچ کا وقت نہیں ہے۔ بین الاقوامی سازشوں اور لہروں کو من و عن سمجھنا ہی دانشمندی ہے۔ جذبات نہیں عقل و دانش کی انتہائی ضرورت ہے یہ بات ایران اور سعودیہ کو فی الفور سمجھنی ہوگی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ خوف زدہ دشمنوں کو رکھا جائے۔ اپنوں کو نہیں! عسکری اور سیاسی قیادت داخلی سطح پر ایک صفحہ پر ہو جس طرح خارجی سطح پر دکھائی دیتی ہے۔ فکر و عمل اور علم و حکمت سے داخلی سطح کو مضبوط کیا جائے۔ ناانصافی اور سیاسی سکورنگ سے اجتناب ضروری ہے۔ اقتصادی راہداری پر بھی اختلافات ختم ہونے چاہئیں! داخلی مضبوط پاکستان ہی امت مسلمہ کا لیڈر پاکستان بن سکتا ہے۔ عسکریت ازم خارجی دشمن اور داخلی دشمن کے لئے ضروری ہے ’’سیاسی دشمن‘‘ کے لئے نہیں۔ نظریہ بچائیں قیادت ازخود بچ جائے گی۔ ’’انجانے خوف‘‘ بھی خوفناک ہوتے ہیں اسرائیل اور بھارت کی طرح۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...