بچوں کی تربیت کیسے کی جائے کہ یہ بہترین انسان بنیں، زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑیں۔ یہ سوال اور خواہش ہر ذی شعور والدین کے ذہن میں ضرور اُبھرتی ہے۔ اس کا جواب والدین ماحول، حالات اور زمانے کے لحاظ سے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کیوں نہ ہم اس کا جواب قرآن پاک میں ڈھونڈیں۔ اگر ہم صرف سورۃ لقمان پر ہی غور و فکرکرلیں تو ہمیں بچوںکی تربیت کے بہت سے رہنما اصول مل جائیں گے۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ قرآن کا تعارف کراتے ہوئے ہمیں سمجھاتے ہیں کہ ’’یہ حکمت والی کتاب ہے، اس کی آیات حکمت سے بھرپور ہیں، لہٰذا جو انہیں سمجھے گا، ان پر عمل کرے گا وہ نہ صرف دنیا کی بلکہ آخرت کی کامیابی سے بھی ہمکنار ہو جائے گا۔‘‘ اصل میں یہی سمجھ داری ہے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ ہماری بھلائی اصل میں ہے کیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج جسے ہم کامیابی سمجھ رہے ہیں وہ دین اور دنیا کا خسارہ ثابت ہو۔ سورۃ لقمان میں اللہ تعالیٰ ایک شخص کا تعارف لقمان کے نام سے کرواتے ہوئے اس کی یہ صفت بیان کرتے ہیں کہ یہ شخص بہت عقلمند اور دانا ہے، اپنی دانائی اور حکمت کی وجہ سے یہ زندگی کی حقیقت کو خوب سمجھتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کا شکر گزار رہتا ہے کیونکہ یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اس کی نعمتوں کا ادراک اس کے اپنے لئے فائدہ مند ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو کسی کی شکرگزاری یا ناشکری سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو آپ سے آپ محمود ہے۔ قرآن میں اس شخص کا بطور باپ جوکردار ہے اپنے بیٹے کی زندگی میں اس کے بارے میں وضاحت کی جا رہی ہے کہ اپنے بیٹے کو یہ کیا نصیحت کرتا ہے، کن ضروری امور کی طرف اپنے بیٹے کی توجہ مبذول کرا رہا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے وہ اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جوڑ رہا ہے، اُسے بتا رہا ہے کہ سب سے بڑی طاقت اللہ تعالیٰ کی ہے ،کبھی کسی اور کو اللہ تعالیٰ کے مقابل نہ لاکھڑا کرنا۔ آج کے بچوں کی تربیت میں سب سے بڑی کمی اس چیز کی ہے کہ وہ کئی خدائوں کو پوجتا دیکھتے ہوئے پروان چڑھتے ہیں۔ یہ سٹیٹس، سٹینڈرڈز کے بُتوں کو پوجتے ہوئے معاشرے اور ماحول میں پرورش پانے والے بچے شاید مستقبل میں اچھا پیسہ کمانے والی مشین تو بن جائیں لیکن شاید وہ انسان نہ بن سکیں جو میرے اللہ کو مطلوب ہیں۔ میرے اللہ کے بندے کی سب سے بڑی خوبی اس کی شکر گزاری ہے جو وہ اپنے ربّ کے حضور کرتا ہے کیونکہ اس تشکر میں وہ اپنی بے بسی اور اللہ کی مکمل مختاری کا اداراک کرتا ہے، اظہار کرتا ہے۔ بچوں کی تربیت میں بھی اس امر کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اللہ کے شکرگزار بندے ہیں کیونکہ ان کی یہ خصوصیت ان میں کئی اور خوبیاں پیدا کرنے کا موجب بنے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے شکرگزار بندے کو اگلی نصیحت یہ فرماتے ہیں کہ اپنے والدین کے بھی مشکور رہو جو تمہیں اس دنیا میں لانے کا سبب بنے یعنی اپنے اللہ کو پہچاننے والا اس کی نعمتوں کا ادراک رکھنے والا ہی اپنے والدین کا بھی قدردان ہو سکتا ہے لیکن یہاں پر اولاد کو یہ تنبیہ بھی کی جا رہی ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کسی صورت میں بھی نہیں کرنا خواہ تمہارے والدین تمہیں اس کیلئے مجبور کریں کیونکہ اللہ کا حق اپنے بندے سے فائق ہے۔ والدین بھی اس حق کو چیلنج کرنے کا استحقاق نہیں رکھتے۔ ہاں ان کے ساتھ نرمی اور بُردباری کا برتائو کرو لیکن اپنا ایمان سلامت رکھو۔ والدین کی اپنی اولاد کے ساتھ سب سے بڑی بدخواہی یہ ہو گی کہ وہ اپنی اولاد کو اللہ کے ساتھ نہ جوڑ سکیں۔ انہیں حق کا راستہ نہ دکھا سکیں، وہ اپنی اولاد کو وہ بات نہ سمجھا سکیں جو حکیم لقمان اپنے بیٹے کو سمجھا رہے ہیں کہ بیٹا اللہ تعالیٰ باریک بین اور باخبر ہے۔ کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی کسی چٹان میں آسمانوں میں یا زمین میں چُھپی ہوئی ہو، وہ اسے جانتا ہے تو وہ تم سے کیسے بے خبر رہ سکتا ہے۔ تمہارا ظاہر اور باطن سب کچھ اس کے سامنے ہے۔ تم کیسے کوئی بُرائی، کوئی من مانی کر سکتے ہو جب وہ دیکھنے والا ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے یہی احساس تقویٰ کہلاتا ہے۔ جب یہ احساس بچوں میں پیدا کر دیا جائے گا تو پھر ماں باپ کو بچوں کی مسلسل نگرانی کی ضرورت نہیں رہے گی اور جو چیز انسان میں تقویٰ پیدا کرنے میں بہت مددگار ہے وہ ہے نماز۔ اس لئے یہاں پر حکیم لقمان اپنے بچے کو نماز قائم کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ نماز کے بارے میں جو تاکید کی جاتی ہے کہ بچوں پر سختی کر کے بھی انہیں نماز کا عادی بنایا جائے تو اس کے پیچھے یہی حکمت ہے۔ تقویٰ انسان کے اندر اچھائی اور بُرائی میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا جب بچوں میں یہ صلاحیت پیدا ہو جائے گی تو وہ نہ صرف خود بُرائی سے بچیں گے بلکہ دوسروں کو بھی نیکی کی طرف بُلانے اور بُرائی سے منع کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کو یہی نصیحت ہے کہ وہ نہی المنکر اور امر بالمعروف کرے۔ لیکن یہ بڑا صبر آزما کام ہے، اس میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا، صبر کرنا جی دار لوگوں کا کام ہے ۔ لہٰذا بچوں کو اگر صابر و شاکر بنا دیا جائے تو پھر دنیاوی معاملات کو اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق نبٹانا ان کیلئے زیادہ دشوار نہیں رہتا۔ حکیم لقمان اپنے بیٹے کی مزید کردار سازی کیسے کرتے ہیں؟ بہت توجہ طلب ہے۔ وہ اُسے تاکید کرتے ہیں کہ بیٹا لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر یعنی کسی کو اپنے سے حقیر نہ جان۔ یعنی والدین کو اپنے بچوں کی تربیت میں یہ عنصر بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ وہ کسی قسم کے احساس برتری میں مبتلا نہ ہوں۔ دوسروں کو اپنے سے کمتر نہ سمجھیں وہ اپنے بیٹے کو زمین پر اکڑ کر چلنے سے منع کرتے ہوئے جواز یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو خود پسند اور فخر جتانے والے لوگ پسند نہیں۔ لہٰذا تم اپنی چال میں اعتدال اختیار کرو۔ ساتھ ہی وہ اپنے بیٹے کو دھیما لہجہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رعونت بھرے بلند لہجے اللہ تعالیٰ کے نزدیک کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ دیکھنا ہے حکیم لقمان جیسا دانشور جو اپنے بیٹے کیلئے دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتا ہے وہ اپنے بیٹے کی تربیت کن خطوط پر کر رہا ہے۔ کیا ہم بھی اپنے بچوں کی تربیت انہی اصولوں پر کر رہے ہیں یا ہمارے پیمانے کچھ اور ہیں۔ اگر ہم قرآن حکیم کے بتائے ہوئے سنہری اصولوں کو اپنے بچوں کی تربیت میں نظرانداز کریں گے تو پھر اس کے بُرے نتائج کے ذمہ دار ہم خود ہوںگے۔