اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ دی نیشن رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان میں ’’پانامہ لیکس‘‘ کیس کی سماعت کے دوران لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پیر کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے حوالے سے دی گئی آبزرویشن واپس لیتے ہوئے کہاکہ اپنے الفاظ پر ندامت ہے، میرے خیال میں ایسی آبزرویشن نہیں دینی چاہئے تھی جبکہ جسٹس اعجاز افضل خان نے آبزرویشن دی کہ عدالت کے سامنے ایک منتخب وزیر اعظم کو آئینی طور پر عوامی عہد ہ کیلئے نااہل قرار دینے کا معاملہ ہے، محض مفروضہ کی بنیاد پر ایک منتخب وزیراعظم کو عوامی عہدہ کیلئے نااہل قرار دینا خطرناک عدالتی نظیر ہوگی ،کیا تقریر کی بنیاد پر وزیر اعظم کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے؟ کیا پارلیمنٹ میں وزیراعظم کی تقریر پر ان کے خلاف فوجداری مقدمہ بن سکتا ہے؟ وزیر اعظم سے بھی بطور انسان کوئی غلط بات ہو سکتی ہے، کیا اسی بنیاد پر انہیں نااہل قرار دیا جائے ،کیا قانونی معیار پر پورا نہ اترنے والی دستاویزات پر ایسا کوئی فیصلہ کرنا درست ہوگا ؟ ہم آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کریں گے ، ماضی میں عدلیہ سے بھی غلطیاں ہوئی تھیں جن پر نظرثانی کی گئی تھی، منگل کے روز وکیل نعیم بخاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ لندن فلیٹس روز اول سے ہی شریف خاندان کی ملکیت ہیں، اگر وزیراعظم کی بات درست تھی تو ان کے بیٹے حسین نواز کا موقف غلط ہے، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ حسین نواز نے صرف قطری سرمایہ کاری کو ہی ذریعہ آمدن بتایا، دبئی، جدہ اور قطری سرمایہ خاندانی لگتا ہے آپ خاندانی سرمایہ سے وزیراعظم کو کیسے منسلک کریں گے؟ آپ کو بتانا ہوگا کہ وزیراعظم کا کاروبار میں کتنا حصہ تھا؟جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ شریف خاندان کا سارا کاروبار میاں شریف کے ہاتھ میں تھا، آپ ان (میاں شریف) کے کاروبار کی منی ٹریل ان کے بچوں سے کیسے مانگ سکتے ہیں؟ اگرکچھ غلط بھی ہواتھا تو اس کا جواب میاں شریف کے بچوں سے کیسے مانگیںگے ؟ انہوں نے سوال اٹھا یا کہ ، کیا قانونی معیار پر پورا نہ اترنے والی دستاویزات پر فیصلہ کرنا درست ہوگا؟ وزیراعظم کی تقریر پر ان کے خلاف فوجداری مقدمہ کیسے بن سکتا ہے؟جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے نعیم بخاری سے کہا کہ کیا آپ کایہ کہنا ہے کہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں سچ نہیں بولاہے اوران بیانات کی وجہ سے دیانتدارنہیں رہے ہیں ،جس پر جسٹس اعجاز افضل خان نے قانونی نکتہ اٹھایا کہ کیا تقریر کی بنیاد پرکسی عوا می نمائندے کی عوامی عہدہ کے لئے نااہلیت ہوسکتی ہے؟ دوران سماعت نعیم بخاری نے وزیر اعظم کے خلاف حدیبہ پیپرز ملز کے مقدمے کی دوبارہ تحقیقات کرنے کے بارے میں قومی احتساب بیورو کو احکامات جاری کرنے کی استدعا کی تو جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت مفادِ عامہ سے متعلق آئین کے آرٹیکل 184(3)کے دائرہ کار کو مزید وسعت نہیں دے سکتی ہے، ورنہ اْسے سمیٹنا بہت مشکل ہو جائے گا، آپ عدالت کے سوالوں کے جواب دیں، جب دوسرے فریق کی باری آئے گی تو ان سے بھی سوالات کے ذریعے کچھ وضاحتیں مانگیں گے، لیکن گپ شپ کرتے ہوئے کسی کے بیان پر اسے نااہل قرار نہیں کیا جا سکتا، ورنہ کیا آپ چاہیں گے کہ ہم اس طرح کی کوئی خطرناک مثال قائم کریں، ماضی میں عدالت نے آرٹیکل184(3)کے تحت چینی کی قیمتوں کا از خود نوٹس لیاتھا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ گئے تھے لیکن کسی نے عدالت کافیصلہ تسلیم نہیں کیا اور بعد میں عدالت کو اپنے وقار اور آئین و قانون کی درستگی کے لئے واپس ہونا پڑا،ہمیں سپریم کورٹ کے اختیار کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے وقار اور احترام کو بھی دیکھنا پڑتاہے ، دوران سماعت نعیم بخاری نے منی لانڈرنگ کے حوالہ سے ا یف آئی ایکے ایڈیشنل ڈائریکٹررحمن ملک کی جانب سے ملزم اسحاق ڈار کے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164کے تحت قلمبند کئے گئے بیان کو شہادت کا حصہ بنانے کی استدعا کی تو اعجاز افضل خان نے کہاکہ یہ بیان احتساب عدالت یاکہیں اور تو کام آسکتاہے لیکن سپریم کورٹ میں نہیں کیونکہ ہم ٹرائل کورٹ نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی ادارہ ہیں، اس حوالہ سے ہائی کورٹ نے نیب کے ریفرنس کو کالعدم قراردیا تھا ، اگرآپ چاہتے ہیں کہ وہ ریفرنس بحال ہو جائے تو اس کے لئے نیب میں الگ سے اپیل دائر کریں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جس طرح کسی پولیس آفسر کی رائے کو شہادت کے طور پر استعمال نہیںکیا جاسکتا ہے ، اسی طرح ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164کے تحت قلمبند کئے گئے بیان کو بھی یہاں شہادت کے طور پر استعمال نہیں کیاجاسکتا ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہم کسی کی رائے پر فیصلہ نہیں دے سکتے ہیں ، کیا عدالت اب رحمان ملک کی رائے کو بنیاد بنا کرفیصلہ جاری کرے گی؟ شہادتی مواد کے بغیر محض رائے کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوا کرتے ہیں، نعیم بخاری نے عدالت کو بتایاکہ وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی تھی وہ پانامہ کیس میں شریف فیملی کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کے جواب میں کی تھی اور وہ لکھی ہوئی تقریر تھی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فاضل وکیل سے کہاکہ ہم نے آئین کی پاسداری کاحلف اٹھایا ہے، ہمیں تحقیق کرتے ہوئے فیصلہ دیناہو گا کیونکہ ہم آئینی حدود میں رہتے ہوئے چل سکتے ہیں فاضل جج نے نعیم بخاری سے کہا کہ ہم نے کیس کی سماعت کے پہلے روز ہی کہا تھا کہ قوم سے وزیراعظم کے خطاب کی بجائے کیس پر دلائل دیں لیکن آپ آج بھی وہیں کھڑے ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری کوکہا کہ آپ جب تک عدالت کی طرف سے پوچھے گئے سوالات پر ہمیں مطمئن نہیں کریں گے روسٹرم چھوڑ کر نہیں جا سکتے ہیں، نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت پاناما لیکس کو نہیں بلکہ وزیر اعظم کی تقریروں کو مدنظر رکھتے ہوئے اْن کی نااہلی سے متعلق فیصلہ جاری کرے، جس پر اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کی تقاریر کو پانامہ لیکس میں آنے والے مبینہ حقائق کے ساتھ کیسے جوڑا جاسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ عدالت درخواست گزار کی جانب سے پیش کی جانے والی دستاویزات کو پرکھنے اور دوسرے فریق کے دلائل سننے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے، حقائق کو سامنے رکھے بغیر محض ادھر اْدھر کی باتیں سن کر ایسے معاملات پر فیصلے نہیں دیئے جاسکتے ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ثبوت بھی تو پیش کریں، اگر یہ ساری جائیداد قطری باشندے کی نکل آئی تو پھر آپ کے موکل کا سارا معاملہ تو ختم ہی ہو جائے گا۔این این آئی کے مطابق ججز نے ریمارکس دیئے کہ مفروضے کی بنیاد پر وزیر اعظم کو نااہل قرار دینا خطرناک عدالتی نظیر ہوگی، ہم کوئی ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتے‘ نعیم بخاری نے کہا کہ اسحاق ڈار نے بیان میں منی لانڈرنگ میں کردار کا اعتراف کیا، ماضی میں تو عدالت عظمی اخباری تراشوں پر بھی فیصلے کرتی رہی جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بخاری صاحب عدالت کو مطمئن کریں قوم سے خطاب نہ کریں۔ اپنے دوست رحمان ملک کو جرح کیلئے کب لا رہے ہیں؟ نعیم بخاری نے کہا کہ ایف آئی اے کا مقدمہ اپنی طبعی موت مر گیا، وہ اپنے جواب الجواب میں رحمان ملک کو جرح کیلئے بلائیں گے۔ فاضل ججز کے ریمارکس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میں تو ’’سٹپنی‘‘ وکیل ہوں اصل وکیل تو حامد خان تھے، حامد خان کے کیس سے الگ ہونے پر بوجھ میرے کندھوں پر آ گیا، وہ عدالت سے اہلیت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی استدعا کرتے ہیں۔ جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ آپ اب وکٹ پر آئے ہیں، آپ پچ سے باہر نکل کر نہ کھیلا کریں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم سیاسی معاملات میں نہیں جانا چاہتے، منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیق تو بہت ہوئی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا، ہمارا کام کرپشن ثابت کرنا نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ مفروضے کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار دینا خطرناک عدالتی نظیر ہوگی، ہم کوئی ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتے ٗ کیا قانونی معیار پر پورا نہ اترنے والی دستاویز پر فیصلہ کرنا درست ہوگا۔ دریں اثنا جماعت اسلامی نے وزیراعظم کو طلب کرنے کے لئے درخواست سپریم کورٹ میںدائر کر دی ہے۔