پاکستان نے آبدوز سے کروز میزائل‘ ہدف پر کامیابی سے داغ کر جوابی ایٹمی حملہ ’’سیکنڈ سٹرائیک‘‘ کی مکمل صلاحیت حاصل کرلی ہے۔
لڑاکا طیاروں اور متحرک بیلسٹک و کروز میزائلوں کی بدولت پاکستان کے پاس دشمن کے ایٹمی حملہ کا جواب دینے کی جزوی استعداد تو پہلے سے موجود تھی تاہم زیرآب‘ آبدوز سے ایٹمی حملہ کرنے کی صلاحیت کو تکنیکی اعتبار سے مکمل مانا جاتا ہے کیونکہ سمندر کی گہرائیوں میں موجود آبدوز کا دشمن کیلئے سراغ لگانا تقریباً ممکن ہوتا ہے۔ بابر تھری کے کامیاب تجربہ کے ساتھ ہی پاکستان نے کئی برسوں سے گردش کرنیوالی ان اطلاعات کی بھی تصدیق کر دی ہے کہ پاکستان‘ فرانسیسی ساختہ آبدوز ’’اگستا‘‘ کی مدد سے کروز میزائل داغ کر سیکنڈ سٹرائیک کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے کسی ایٹمی آبدوز کے بجائے روایتی ڈیزل الیکٹرک آبدوز سے بابر تھری کو داغا ہے۔ بیلسٹک یا کروز میزائل کے زیر آب تجربہ کی اپنی اہمیت ہے۔ ایٹمی آبدوز کے بغیر سیکنڈ سٹرائیک صلاحیت حاصل کرنے کا پاکستانی اقدام اس اعتبار سے بھی بہت اہم ہے کہ پاکستان سے پہلے صرف اسرائیل نے اس ماڈل کو اختیار کیا ہے۔ بابر تھری‘ ایسی سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس ہے جس کی مدد سے وہ سطح آب کے نشیب و فراز کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے دشمن کے میزائل نظام کو شکست دے کر ہدف کو تباہ کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ بابر تھری کے تجربہ کیلئے بحرہند کا انتخاب بھی خاص معنویت حامل ہے کیونکہ بھارت‘ بحرہند کو اپنا پچھواڑا سمجھتا ہے۔ اس سمندر میں بابر تھری کا تجربہ کرکے پاکستان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس سمندری خطہ میں نہ صرف خفیہ تجربات کر سکتا ہے بلکہ بابر تھری کی رینج سے بھارت کا کوئی ساحلی ٹھکانہ باہر نہیں ہے۔ ہمارا دشمن روایتی اور غیرروایتی اسلحہ کے انبار لگا رہا ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ پاکستان کے کل بجٹ کے برابر ہے‘ ایسے میں دشمن کا مقابلہ اسلحہ میں معیار اور فوج کی اعلیٰ مہارت سے ہی کیا جا سکتا ہے جس کیلئے پاکستان کوشاں ہے اور یہی اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا طریقہ بھی ہے۔