وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں 9 انڈسٹریل زون بنانے پر اتفاق ہوگیا ہے‘ سی پیک فریم ورک میں متعدد نئے منصوبے شامل کئے گئے ہیں۔ جن میں سیاحت‘ پانی دیگر معاشی اہمیت کے منصوبے شامل ہیں‘ 8 ارب روپے کے حامل ایم الیون پشاور سے کراچی منصوبے پر فنانسنک کو حتمی شکل دینے کیلئے چینی حکام کا وفد جنوری میں پاکستان کا دورہ کریگا۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ جی سی سی کے چھٹے اجلاس کی میٹنگ بیجنگ میں ہوئی تھی۔ یہ نہ صرف پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں بلکہ 2 ممالک کے تعلقات کو بڑھانے کے حوالے سے بہت اہم تھی‘ جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کرکے سی پیک کے ایشو پر ایک ہونے کا پیغام دیا ہے۔ جی سی سی کے اجلاسوں میں متعدد نئے منصوبوں کو سی پیک میں شامل کرنے پراتفاق کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی سی سی کے اجلاس میں 9 انڈسٹریل زون بنانے پر اتفاق ہوگیا ہے‘ کے پی کے میں رشکنی میں انڈسٹریل زون اور فاٹا میں مہمند ماربل سٹی کو انڈسٹریل زون بنانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ وزیراعظم جلد تمام سیاسی پارٹیوں کو بلا کر سی پیک منصوبوں پر بریفنگ بھی دینگے۔ خیبر پختونخواہ میں اقتصادی راہداری منصوبے پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن کے تحفظات اولین مرحلے پر دور کرانے کے بعد بیجنگ میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال اور وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق کی مفاہمانہ اور خوشگوار ملاقاتوں اور پاک چین مشترکہ کمیٹی کے اجلاس میں منصوبوں کی منظوری اور اتفاق کے بعد سی پیک کے حوالے سے تحفظات کے اظہار کا خاتمہ فطری امر ہے جبکہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی جانب سے سی پیک کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو بلا کر بریفنگ کے اہتمام کے بعد کوئی مغالطہ بھی باقی نہ رہے گا اور منصوبے پر تیزی سے عمل درآمد شروع ہوسکے گا۔ منصوبے کے تحت ملک بھر میں نو انڈسٹریل زونز بنانے پر کلی اتفاق کیا گیا ہے جس میں ایک ایک زون خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں ہونگے۔ آٹھ ارب روپے کی لاگت سے پشاور سے کراچی تک مواصلات کی ترقی و بہتری پر خرچ سے نہ صرف پشاور اور کراچی میں ایک براہ راست اور تیز رفتار رابطہ قائم ہوگا جس کے اثرات و ثمرات بار برداری کی نقل و حمل اور آمد و رفت سمیت مختلف اشکال میں سامنے آئینگے اسکی تعمیر سے گویا کراچی کی بندرگاہ اور پشاور کا ڈرائی پورٹ براہ راست منسلک ہونگے۔ بیجنگ میں جی سی سی کا چھٹا اجلاس اس بنا پر سنگ میل قرار پایا تھا کہ اس اجلاس میں ملکی قیادت اور چینی دوستوں کی موجودگی میں مفاہمت اور روا داری کی فضا میں منصوبے طے کئے گئے اور اختلافات و تحفظات کا خاتمہ ہوا جسکے بعد اب اندرون ملک استحکام امن پر توجہ کے ساتھ سی پیک منصوبوں کو تیز رفتاری سے مکمل کرنے کیلئے ساز گار ماحول پیدا کرنا اور انکی تکمیل ہے۔ ہمارے تئیں اس منصوبے کے ضمن میں سب سے پہلے ترجیح گلگت سے شروع ہونیوالے منصوبوں کو دی جانی چاہیئے اس کے بعد خیبر پختونخواہ اور پھر بلوچستان ‘ پنجب اور سندھ میں منصوبوں کو مکمل کیا جائے تاکہ جہاں جغرافیائی قربت کے حامل منصوبے ہی مکمل نہ ہوں بلکہ ترقی کا سفر پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں سے شہروں اور ترقی یافتہ علاقوں کی طرف طے کرنے کی مثال قائم ہو اور محولہ علاقے شہری و صنعتی علاقوں کے ہم پلہ ہونے کی راہ پر آئیں۔ گلگت سے شندورچکدرہ روڈ کی تعمیر سے شمالی علاقہ جات چترال اور مالا کنڈ ڈویژن کے علاقے میں تعمیر و ترقی چھوٹی بڑی صنعتوں ‘ سیاحت اور کاروبار و روزگار کے منصوبوں کو مہمیز ملے گی البتہ اس منصوبے پر عملدرآمد سے ماہرین قدرتی ماحول کی تباہی جنگلات اور جنگلی حیات آلودگی میں اضافے معاشرتی تبدیلی سے پیدا شدہ مسائل کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اس حوالے سے بھی مسائل کے حل کو منصوبوں کا حصہ بنایا جائے۔ انڈسٹریل زونز کے قیام سے آلودگی میں اضافے پر قابو پانے کیلئے کارخانہ لگانے والوں کو ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کا کارخانوں کی تعمیر کے وقت ہی پابند بنا کر تعمیرات میں ماحولیاتی ماہرین کی سفارشات کو شامل کیا جائے تاکہ بعد میں پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گو کہ بیجنگ کے اجلاس کے بعد سی پیک کے حوالے سے کسی قسم کے تحفظات باقی نہیں رہے لیکن بہرحال وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے تمام سیاسی جماعتوں کو بریفنگ کا اہتمام اتھا م محبت ہوگا اور یہ من حیث القوم اس منصوبے پر اتفاق کے عملی مظاہرے کا ایک زریں موقع ہوگا۔دریں اثناء پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے بلا شرکت غیرے صدر نشین جناب آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ سی پیک پر سیاست نہیں ہوگی‘ تکمیل کیلئے وفاق سے مکمل تعاون کرینگے۔ بلاول کے ساتھ ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے زرداری نے بتایا کہ سندھ کے تحفظات اور شکوک دور ہوگئے ہیں‘ سی پیک گیم چینجز منصوبہ ہے‘ ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی‘ سیکڑوں ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔ ان خیالات کا اظہار پیپلز پارٹی کی طرف سے وفاقی حکومت اور مسلم لیگ ن کیلئے دوستی کا پیغام ہے جسے سراہا جانا چاہیئے۔ میاں نواز شریف کو اس وقت دوستوں کی شدید ضرورت ہے‘ وہ پانامہ لیکس میں پھنسے ہوئے ہیں اور انکے مخالفین اس آس میں ہیں کہ وہ اب گئے کہ اب گئے۔ تاہم زرداری صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ سی پیک کا منصوبہ ان کا ہے ‘ سی پیک کا خیال اور پالیسی دے کر ہم نے اپنا اشتہار تاریخ میں دے دیا ہے اور اس حوالے سے میڈیا کریڈٹ لینے کیلئے اشتہار دینے والوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ زرداری صاحب کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کیلئے تو بھٹو نے 1968ء میں کلیدی کام کیا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ ٹھیک کہہ رہے ہوں لیکن 1968ء میں بھٹو صاحب کی سرکاری حیثیت کیا تھی؟ جہاں تک تاریخ میں آصف زرداری کے اشتہار کا تعلق ہے تو انہیں بھی معلوم ہوگا کہ انکے حوالے سے تاریخ میں اور بہت سے اشتہارات چھپے ہوئے ہیں۔زرداری صاحب ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں اور اپنے دور صدارت میں انہوں نے تہران جا کر معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے لیکن یہ منصوبہ تو اب تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا۔ اسکی ناکامی یا تاخیر کا کریڈٹ کون لے گا ؟ سی پیک ہی سہی دونوں حریف جماعتیں اس راہ پر قریب آرہی ہیں اور یہ ایک اچھی بات ہے۔