کشمیری ہونے کے ناطے اقبال کو کشمیری مسلمانوں کی محکومی‘ غربت اور بے چارگی کا ہمیشہ خیال رہتا تھا۔ کشمیر کے ساتھ ان کا ذہنی‘ دلی اور جذباتی لگائو آخری دم تک رہا۔ انگریز نے اپنے راج میں گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ کشمیر کو پچاس لاکھ (پچھتر تانک شاہی) کے ہاتھ بیچ دیا۔ یوں مظلوم کشمیریوں کو ہندو راج کے سپرد کر دیا گیا۔ مندرجہ ذیل شعر میں اقبال نے کس غمنا کی اور جذباتی وابستگی کا ثبوت دیا ہے…؎
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
اقبال نے کشمیریوں کیلئے جوش و جذبہ سے نظمیں کہیں‘ قطعات اور نظمیں کشمیر گزٹ میں شائع ہوتی تھیں۔ اقبال کشمیر کمیٹی کے سرگرم رکن کے طورپر اپنے فرائض سنبھالتے رہے۔ ڈوگرہ راج کے ظلم‘ بربریت‘ ظالمانہ تنگ نظری اور غیرانسانی رویئے کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ اقبال نے اپنی دردمند آواز سے کشمیریوں کو ایک شعور‘ نیا ولولہ اور نیا جذبہ دیا…؎
توڑ اس دست جفا کش کو یار جس نے
روحِ آزادی کشمیر کو پامال کیا
محمد رمضان گوہر