اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت/نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری پر واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ نیب اور ٹرائل کورٹ کا کام نہیں کر سکتی، آپ نیب کے پاس جائیں اور درخواست دیں، ہم ٹرائل کورٹ نہیں، مفروضے کی بنیاد پر وزیر اعظم کو نااہل قرار دینا خطرناک عدالتی نظیر ہوگی، ہم کوئی ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتے‘ منگل کو سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ کے بارے میں رپورٹ تیار ہوئی تھی، جسے ستمبر 1998 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ، چیف جسٹس آف پاکستان اور نیب کو بھیجا گیا تھا اس رپورٹ کو ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر رحمان ملک نے تحریر کیا تھا۔ اس دوران جسٹس گلزار احمد نے نعیم بخاری کو تنبیہ کی کہ عدالت جب کوئی سوال پوچھے تو اس کا جواب دیا جائے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ پاناما کیس لندن فلیٹس تک محدود ہے، اسحاق ڈار کے بیان کی کیا اہمیت ہے کیا وہ شریک ملزم ہیں؟، ہمیں مطمئن کریں کہ نیب کو حدیبیہ کیس میں اپیل کرنا چاہیے تھی، اگر آپ دوسری جانب دلائل دیں گے تو معاملہ کہیں اور نکل جائیگا، سپریم کورٹ کا تقدس ہر حال میں برقرار رکھنا ہوگا، اپنے دائرہ کار سے باہر نہ نکالیں، ہائی کورٹ مقدمہ ختم کر دے تو اس کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ محض پولیس ڈائری کی بنیاد پر حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، تفتیشی ادارے جو اقدامات کریں انہیں قانونی طور پر پرکھنا ہوتا ہے، نیب کو تحقیقات کا کہہ سکتے ہیں لیکن ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہیں گے، سپریم کورٹ نیب اور ٹرائل کورٹ کا کام نہیں کر سکتی، آپ نیب کے پاس جائیں اور درخواست دیں، ہم ٹرائل کورٹ نہیں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ اسحاق ڈار نے بیان میں منی لانڈرنگ میں کردار کا اعتراف کیا، ماضی میں تو عدالت عظمی اخباری تراشوں پر بھی فیصلے کرتی رہی جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بخاری صاحب عدالت کو مطمئن کریں قوم سے خطاب نہ کریں، آپ کہتے ہیں کہ رائے کی بنیاد پر بغیر ثبوت فیصلہ کریں، یہ رپورٹ ایف آئی اے خود مسترد کر چکی ہے اس پر فیصلہ کیسے دیں، رحمان ملک کا نام شاید پاناما لیکس میں ہے، کیا عدالت فیصلہ کرنے کا اختیار رحمان ملک کو دے دے، اپنے دوست رحمان ملک کو جرح کیلئے کب لا رہے ہیں؟ نعیم بخاری نے کہا کہ ایف آئی اے کا مقدمہ اپنی طبعی موت مر گیا، وہ اپنے جواب الجواب میں رحمان ملک کو جرح کیلئے بلائیں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کریمنل کورٹ نہیں ہے، بغیر ثبوت پولیس افسر کی رائے کی کوئی قانونی اہمیت نہیں، راستہ صرف یہی ہے کہ چیئرمین نیب فیصلہ کے خلاف اپیل کریں، اپیل جانچنے کے بعد فیصلہ کریں گے دوبارہ تفتیش کا حکم دے سکتے ہیں یا نہیں۔ آپ کی تحقیق بہت اچھی ہے لیکن اس کا کیا فائدہ۔ آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ پہلے تفتیش اور پھر ٹرائل کورٹ بن کر فیصلہ دے حالانکہ عدالت کے سامنے معاملہ آئینی طور پر نااہل قرار دینے کا ہے۔ فاضل ججز کے ریمارکس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میں تو ’’سٹپنی‘‘ وکیل ہوں اصل وکیل تو حامد خان تھے، حامد خان کے کیس سے الگ ہونے پر بوجھ میرے کندھوں پر آگیا، وہ عدالت سے اہلیت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی استدعا کرتے ہیں۔ جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ آپ اب وکٹ پر آئے ہیں، آپ پچ سے باہر نکل کر نہ کھیلا کریں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ آپ چاہتے ہیں ہم قانون سے بالاتر ہوکر تحقیقات کریں، کیا رحمان ملک نے بطور وزیر یہ معاملہ اٹھایا، کیا منی لانڈرنگ پر ہونے والی تحقیقات انجام کو پہنچیں، جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ وزیر داخلہ بننے کے بعد رحمان ملک کو یہ معاملہ اٹھانا چاہیے تھا، مخلوط حکومت بنی تو (ن) لیگ حکومت کا حصہ تھی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم سیاسی معاملات میں نہیں جانا چاہتے، منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیق تو بہت ہوئی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا، ہمارا کام کرپشن ثابت کرنا نہیں ہے۔ وقفے کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے ٹرسٹ ڈیڈ پر معاونت سے متعلق استفسار کیا تو نعیم بخاری نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ مقدمے کے بعد اپنے دفاع میں تیار کی گئی اس کا مقصد نواز شریف اور مریم کو جائیداد سے الگ کرنا ہے، اس ٹرسٹ ڈیڈ کو ہمیشہ خفیہ رکھا گیا۔ اگر قطری خط کو باہر نکالیں تو ٹرسٹ ڈیڈ کو کوئی اہمیت نہیں، یہ خط رحمان ملک کی دستاویزات سے زیادہ کچھ نہیں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ شریف خاندان کا سارا کاروبار میاں شریف کے ہاتھ میں تھا تو میاں شریف کے کاروبار کی منی ٹریل بچوں سے کیسے مانگ سکتے ہیں؟ کچھ غلط ہوا بھی تو اس کا جواب میاں شریف کے بچوں سے کیسے مانگیں؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ نواز شریف، حسین نواز اور مریم صفدر حدیبیہ ملز کے ڈائریکٹرز میں شامل تھے، طارق شفیع کی جگہ شہباز شریف نے فروخت کے معاہدے پر دستخط کئے، التوفیق کیس میں شہباز شریف بھی فریق تھے اور اس کیس میں 34 ملین ڈالرز ادا کئے گئے۔ نعیم بخاری نے عدالت کے روبرو کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ جدہ ملز کی فروخت سے بچوں نے کاروبار کا آغاز کیا، حسن نواز کی 12 کمپنیوں میں 2005 تک 20 لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ رقم موجود تھی، یہ شواہد وزیراعظم کے بیان کی تردید کر رہے ہیں جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ دنیا کی کسی عدالت نے پانامہ لیکس کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دیا،کیا ایسی کوئی ایک عدالتی مثال بھی موجود ہے۔ کیا شفاف ٹرائل کے بغیر عدالت فیصلہ دے سکتی ہے جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ آپ اس کی ابتدا کرسکتے ہیں اور پاناما لیکس کی دستاویزات کو ہر جگہ درست تسلیم کیا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ مفروضے کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار دینا خطرناک عدالتی نظیر ہوگی، ہم کوئی ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتے ٗ کیا قانونی معیار پر پورا نہ اترنے والی دستاویز پر فیصلہ کرنا درست ہوگا۔ دستاویزات کا جائزہ لینے پرعلم ہوگا وزیراعظم نے اثاثے چھپائے یا نہیں، وزیراعظم کی تقریر کا جائزہ لینا مختلف بات ہے اور وزیراعظم کا پانامہ کے ساتھ تعلق دیکھنا الگ بات ہے، ان کی تقریر پر فوجداری مقدمہ کیسے بن سکتا ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر اور پاناما کے درمیان تعلق کیسے ثابت کریں گے۔اس دوران جسٹس شیخ عظمت سعید اور نعیم بخاری کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا، جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کیلئے کچھ آسانیاں پیدا کروں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ اب تک تک تو آپ نے مشکلات ہی پیدا کی ہیں۔ آپ کی بعض باتوں نے مجھے دکھی کیا ہے جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ تکلیف کیلئے معذرت لیکن ہمارا مقصد اصل حقائق تک پہنچنا ہے ٗہم نہیں چاہتے کہ صرف دلائل سنیں اور فیصلہ دے دیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ قطری خط بظاہر سنی سنائی بات ہے اس کی قانونی حیثیت پر سوال کرسکتے ہیں۔ عدالت نے نعیم بخاری سے کہا کہ وہ جب تک عدالت کو مطمئن نہیں کریں گے وہ روسٹرم چھوڑ کر نہیں جا سکتے بعد ازاں سماعت (آج) بدھ تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔ نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لندن فلیٹس روز اوّل سے شریف خاندان کے ہیں۔ اس پر جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ پاناما کیس لندن فلیٹس تک محدود ہے، ہمیں مطمئن کریں کہ نیب کو حدیبیہ کیس میں اپیل کرنی چاہیے تھی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم نے مقدمے کو 184/3 کے تحت دیکھنا ہے، کچھ مقدمات میں اتنا آگے گئے کہ بند گلی میں پہنچ گئے۔ سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ سے متعلق آبزرویشن پر ندامت ہے، الفاظ واپس لیتا ہوں۔