فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے

امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کو نوٹس پر رکھ کر پاکستانی واجبات جنہیں وہ امداد کہتے ہیں، ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پینٹاگون میں بیٹھے CIA کے چیف نے بھی دہشت گردوں کے پاکستان کے اندر محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کی شرط عائد کر دی ہے جبکہ وہ اُن ٹھکانوں کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں اور نہ ہی پاک افغان سرحد پر باڑلگانے یا چوکیاں بنانے کے حامی ہیں۔ ’’لبیک یارسول‘‘ کا نعرہ لگاتے عوام سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں جو اپنی خانقاہوں سے شاذو نادر ہی نکلتے ہیں اور جنہوں نے کبھی سیاست کے میدان میں قدم نہ رکھا تھا وہ بھی حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ ماڈل ٹائون کے 14 شہیدوں اور 92 سے زیادہ بے گناہ انسانوں کو گولیوں سے چھلنی کرنے والوں کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شہیدوں اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین اور رشتہ داروں، احباب اور ان سے ہمدردی رکھنے والے جو گزشتہ کئی سال سے دھرنوں اور قانونی جنگ میں مصروف ہیں۔ طاہر القادری صاحب نے تقریباً 40 سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے بعد ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اساتذہ، ڈاکٹر اور گنے کے کاشتکار اپنے اپنے مطالبات لے کر سڑکوں پر ہیں۔ پولیس کے ہاتھوں کبھی ان کی پٹائی اور کبھی دُھلائی ہو رہی ہوتی ہے۔ آپریشن ردالفساد پورے ملک میں جاری ہے بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد اور دہشت گرد گرفتار ہو رہے ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان میں خانہ جنگی کروانے کے لئے دشمن طویل عرصے سے منصوبہ بندی کئے بیٹھا تھا۔ بیروزگاری کا شکار نوجوان چھینا چھپٹی اور ڈاکے ڈالنے پر مجبور ہیں، وہ کیا کھائیں، اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کی لازمی ضروریات کیسے پوری کریں؟ غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے دشمن کے لئے ان نوجوانوں کو خریدنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پینے کا صاف پانی بھی 30 روپے لیٹر خریدنا پڑتا ہے۔ بیماری کی صورت میں سرکاری ہسپتالوں میں ایک بیڈپر تین تین مریض نظرآ رہے ہیں اور خواتین سڑکوں پر بچے جننے پر مجبور ہیں۔ ڈاکٹر علاج کرنے سے قاصر ہیں ادویات دستیاب نہیں ہیں اگر ہیں تو ادویات کی قیمت اتنی زیادہ بڑھا دی گئی ہے کہ عام آدمی تو کیا اچھی بھلی آمدنی رکھنے والوں کے لئے بھی خریدنا مشکل ہو چکا ہے۔ دوسری طرف پرائیویٹ ہسپتالوں میں صرف اور صرف نمبر دو کام کرنے والے یا راشی اور سمگلر ہی اپنا علاج کروا سکتے ہیں۔ خوراک میں ملاوٹ روزمرہ کا معمول بن چکی ہے چینلز پر ڈاکومنٹری دیکھ کر بازار میں دستیاب کھانے پینے کی اشیائے صرف دیکھی جا سکتی ہیں کھانے کی صورت میں بیماری لازمی ہے۔ سبزی ترکاری اور پھل فروٹ بھی مہنگائی کی نظر ہو چکے ہیں عوام کیا کھائیں کیسے جئیں؟ اربوں کھربوں کی کرپشن سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان افسران اور سیاستدانوں کی گرفتاریاں اور ان کی داستانیں سامنے آ رہی ہیں۔ قرض میں دھنسی ہوئی ریاست پاکستان اپنی زندگی کی سنگین ترین مشکلات سے دو چار ہے۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر دشمن نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں جس کے نتیجے میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اقتدار سے برطرف ہونے کے بعد سے سابق وزیراعظم ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے صدمے سے باہر نہیں آ سکے ہیں۔ ان کے ساتھی، دوست اور ہمدرد بھی انہیں سمجھانے سے قاصر ہیں۔ ان کے لہجے اور گفتگو میں تلخی بہت زیادہ آچکی ہے۔ حکومتی ادارے تماشا دیکھ رہے ہیں وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہے کیا قانون صرف اور صرف کمزور کے لئے ہے؟ ریاست کے رکھوالوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کو سنبھالیں اس سے پہلے کہ کوئی بڑا حادثہ ہو جائے۔ آئین میں ہر طرح کی صورت حال سے عہدہ برأ ہونے کا طریقہ اور راستہ موجود ہے۔ جناب ثاقب نثار چیف جسٹس آف پاکستان جب اپنے چیمبرز سے نکل کر صاف پانی، تعلیم اور صحت کے لئے مخصوص اداروں کا جائزہ لے رہے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ فساد کی جڑ کی طرف توجہ مرکوز نہیں کر رہے؟ چند سال پہلے جب بانی ایم کیو ایم نے اپنے ٹیلی فونک خطاب میں کراچی کے لوگوں کو بغاوت پر اکسایا تھا تو لاہور ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ اس شخص کا ٹیلی فونک خطاب پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا پر نہ چھپ سکتا ہے اور نہ ہی اس کا نام اور تصویر شائع کی جاسکتی ہے۔ وہ دن اور آج کا دن کراچی میں ایم کیو ایم کے شکنجے میں جکڑے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ اگر اس شخص کو مزید موقع ملتا تو وہ یقینی طور پر کراچی کو بیروت بنانے میں کامیاب ہو جاتا، بعد میں جب رینجرز نے اسلحے کے ذخیرے پکڑے اور سرکاری زمینوں پر بنائے گئے سیکٹر آفس گرائے تو ایم کیو ایم کا خوف ختم ہوا۔ اس طرح کراچی کے عوام کو بانی ایم کیو ایم کی غلامی سے نجات ملی۔ جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے انہوں نے اب تک ہونے والی تمام سازشوں کو ناکام بنایا ہے انہیں جب بھی موقع ملا عید میلاد النبیؐ ہو 14 اگست ہو یا کرکٹ میچ میں پاکستانی ٹیم کی فتح انہوں نے کھلے دل کے ساتھ پشاور سے کوئٹہ اور کراچی تک جشن منا کر اپنی وطن سے محبت کا ثبوت دیا ہے۔ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کو توہین عدالت مسلسل کرنے اور عدالت کی عالیہ کے خاموش رہنے کی وجہ سے یہ حوصلہ ہوا ہے کہ اب وہ جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جا رہے ہیں کہتے ہیں جھوٹ اگر تواتر سے بولا جائے تو بولنے اور سننے والوں کو سچ لگنے لگتا ہے…!

ای پیپر دی نیشن