اقلیتوں پر مظالم، بھارت ٹرمپ کی نظروں سے اوجھل کیوں؟

Jan 11, 2018

اسرا ر بخاری

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اگر ورطۂ حیرت میں چلے گئے تو یہ باعث تعجب نہیں بلکہ عین فطری ہے۔ ایک ایسا الزام کہ جن کی بظاہر طرفداری میں الزام لگایا گیا وہ بھی حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ امریکہ نے پاکستان پر اقلیتوں کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا ہے۔ بلاخوف تردید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اقلیتوں کو سب سے زیادہ مذہبی آزادی حاصل ہے۔ عیسائیوں، ہندوئوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں اور اکثریت رکھنے والے مسلمانوں میں جیسی اپنائیت پائی جاتی ہے کوئی دوسرا ملک اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ امریکی الزام حُب اقلیت نہیں بلکہ بغض برائے پاکستان ہے۔ کیا امریکی صدر ٹرمپ کی آنکھوں میں ککرے پڑے ہیں کہ اسے اسے وہ خطۂ ارضی نظر نہیں آ رہا جہاں روز اول سے اقلیتوں کی زندگیاں اجیرن ہیں۔ مسلمان قوم تو اولین ہدف ہیں۔ عیسائی، سکھ، بدھسٹ حتیٰ کہ نچلی ذات کے ہندوئوں دلت بھی ہندو غنڈوں سے جنہیں حکمرانوں کی سرپرستی حاصل ہے بچے ہوئے نہیں ہیں۔ دہشت گرد ہندو تنظیم ایس ایس آر کا سربراہ موہن بھاگوت کئی بار یہ لن ترانی چھوڑ چکا ہے کہ 2021ء تک بھارت سے تمام غیر ہندوئوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ وزیر داخلہ راجناتھ نے کہا سیکولر ازم کوئی شے نہیں بھارت ہندئوں کا ملک ہے۔ وزیر مملکت آننت کمار ہیکڑے نے لوک سبھا میں خطاب میں کہا بھارتی آئین سے سیکولرازم نکال دینا چاہئے۔ ویسے بھارت نے اول روز سے سیکولر ریاست کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ بھارت کے معروف اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق ’’سیکولرازم کا راگ الاپنے والے بھارت کا چہرہ وزیراعظم نریندر مودی چھپا نہ سکے۔ مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس سے لگتا ہے انہیں اپنے ملک میں رہنے کا حق نہیں۔ مودی نے مسلمانوں کے خلاف پرتشدد اقدامات کی ہلکے پھلکے انداز میں مذمت تو کی لیکن انہیں روکنے کیلئے قدم نہیں اٹھایا۔ 2017ء مسلمانوں کیلئے ڈرائونے خواب کی طرح گزرا ہے۔ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں سو فیصد اضافہ ہوا۔ گائو رکھشا کے نام پر گزشتہ سال مسلمانوں کی قتل و غارت عروج پر رہی۔ بھارتی شہر مظفر نگر کے بدنام زمانہ ہندو دہشت گردوں کی تنظیم سنگت سُوم کو وزیراعظم مودی نے لوک سبھا کے ٹکٹ دیئے، انہیں کامیاب کرایا اور وزارتوں سے نوازا۔ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے اس کے لیڈر ڈاکٹر مہیش شرما کو ثقافت کا مرکزی وزیر بنایا گیا۔

بھارتی جریدے ’’آئوٹ لک‘‘ میں شائع شدہ مضمون سے بھارت کا ہندو چہرہ بے نقاب ہو گیا۔ مضمون نگار کے مطابق بھارت کے حکمرانوں نے 11 دسمبر 2017ء کو بابری مسجد کے انہدام کی 25ویں سالگرہ سرکاری طور پر منائی۔ بھارتی ٹی وی چینل کے تجزیہ نگار کے مطابق نریندر مودی کئی بار کہہ چکا ہے کہ دستور ہند ہندوستان کی سب سے مقدس کتاب ہے مگر یہ سب دکھاوے کی باتیں ہیں، دل میں وہی ہے جو اننت کمار ہیکڑے کی زبان پر ہے‘‘۔ بھارتی میڈیا کے مطابق گجرات کا الیکشن مودی نے پاکستان دشمنی کے جذبات اچھال کر لڑا اور یہ پروپیگنڈہ کیا کہ پاکستان گجرات میں احمد پٹیل کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتا ہے۔ احمد پٹیل کانگریس کے مقامی لیڈر ہیں مگر کانگرس نے انہیں وزیراعلیٰ بنانے کا تو ہلکا سا اشارہ بھی نہیں دیا تھا جبکہ مودی نے ان کے وزیراعلیٰ بننے کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا۔ کانگرس کے ترجمان رندیپ سورج والا نے کہا ہے کہ مودی کے قول و فعل میں اتنا تضاد ہے کہ وہ کہے کہ دستور مقدس ہے تو اس کا مطلب کچھ اور ہے۔ جب وہ کہے گائو رکھشا کے نام پر دہشت گردی ناقابل برداشت ہے تو اس کا مطلب ہے ایسا کرنے والے نیک کام کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں یہ صورتحال ہے کہ مساجد میں لاتعداد نمازیں حتیٰ کہ بہت سی نماز جمعہ بھی ادا نہ کی جا سکی لیکن ٹرمپ کو یہ سب نظر نہیں آ رہا۔ یقیناً امریکہ اور اس کے چہیتے اسرائیل سے کروڑوں ڈالر کے اسلحہ کی خریداری آنکھوں پر پٹی بن گئی ہے۔
امریکہ کی جانب سے واچ لسٹ میں شامل ممالک برما، چین کے بعد سعودی عرب سمیت 9 مسلمان ممالک کا نام ہے اب پاکستان کا اضافہ ہو گیا ہے مگر جہاں مذہبی آزادی ایک خواب بن چکی ہے اس ملک بھارت کا نام نہیں ہے، جو ملک باقاعدہ کھلی ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ خود امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے جولائی 2017ء کے اداریہ کے مطابق مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد جو کھل کر سامنے آیا وہ ایک سیکولر ملک کی بنیادوں کو ہلا دینے والا ہے، مقدس مانے جانے والے جانور گائے کا احترام نہ کرنے والوں پر ہجوم کے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ تر مرنے والے مسلمان ہیں، گائو رکھشا بھارت میں مذہبی آزادی کے دعووں پر بڑا دھبہ ہے، مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد 63 واقعات میں مسلمانوں کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا لیکن بدترین مذہبی ریکارڈ کے باوجود بھارت کو واچ لسٹ میں نہیں رکھا گیا اس سے امریکی منافقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسری بڑی اقلیت سکھ بھی ہندوئوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں۔ سکھ رہنما سردار من موہن سنگھ خالصہ نے کہا ہے کہ ’’مودی موجودہ دور کا ہٹلر ہے، ہندوستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کا استحصال کر رہا ہے، ایک سازش کے تحت گرو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کا سلسلہ شروع کروا کر اس کی آڑ میں ظلم و ستم کا نیا سلسلہ شروع ہونے جا رہا ہے، اب خالصتان ہی سکھوں کیلئے نجات کا واحد راستہ ہے۔ 2020ء کا ریفرنڈم خالصتان کے حصول کو ممکن بنائے گا، ہم غلام ہیں ہم نے آزاد ہونا ہے‘‘۔ ’’سکھ فار جسٹس‘‘ تنظیم کے مشیر اٹارنی گربنونت سنگھ پنوں نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت سکاٹ لینڈ کی طرز پر ہمیں آزادی کیلئے ریفرنڈم کی اجازت دے۔ ان کی تنظیم 2020ء میں غیر سرکاری طور پر خالصتان کے لئے ریفرنڈم کا انعقاد کرے گی جس کے نتائج کا جائزہ لیا جائے گا اور اگر ضرورت پڑی تو اقوام متحدہ سے مداخلت کیلئے اپیل کی جائے گی تاکہ ریفرنڈم کا انعقاد ممکن بنایا جا سکے۔ گردوارہ سکھ کلچرل سوسائٹی کے صدر کلدیپ سنگھ ڈھلوں نے کہا کہ 1984ء میں گولڈن ٹمپل کی تباہی اور سکھوں کی نسل کشی کے بعد ہمارے لئے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ اپنا خودمختار ملک حاصل کیا جائے، آزادی کیلئے لاکھوں سکھ جانیں قربان کر چکے ہیں، ہم ان کی قربانیاں ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

مزیدخبریں