قصور میں کمسن بچی کے لرزہ خیز قتل کیخلاف پورا شہر سراپا احتجاج بن گیا، جگہ جگہ مظاہرے، عوام گیٹ توڑ کر ڈی سی آفس میں داخل ہو گئے، فائرنگ سے دو افراد جاں بحق3 زخمی ہوگئے، حالات بے قابو ہونے پر رینجرز کو طلب کر لیا گیا۔ شہریوں کا موقف ہے کہ شہر میں ایک سال کے دوران 11کمسن بچیوں کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا لیکن پولیس تاحال ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کر سکی۔
ڈی پی او قصور ذوالفقار احمدکا کہنا ہے، اجتماعی زیادتی کے بعد قتل ہونیوالی یہ آٹھویں بچی ہے۔ قصور کے گائوں حسین والا میں بچوں سے زیادتی کا ایک بڑا سکینڈل ڈیلی دی نیشن کے توسط سے دو سال قبل سامنے آیا تھا۔ زیادتی کی 100 سے زائد ویڈیوز بھی میڈیا میں گردش کرتی رہیں۔ یہ بچے اب کس ذہنی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں یہ انکو پتہ ہو گا یا انکے والدین کو‘ مگر پولیس نے کتنے مجرموں کو نشان عبرت بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کیا اس کا جواب آسانی سے مل سکتا ہے۔ اگر پولیس اور متعلقہ اداروں نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہوتی تو ایک چھوٹے سے ایریا میں بچیوں سے زیادتی کے 11 واقعات نہ ہوتے۔ آٹھ کی تصدیق تو ڈی پی او نے بھی کی ہے۔ پولیس سربراہ کا کام زیادتی کے اعداد و شمار جاری کرنا اور انفارمیشن دینا نہیں، ایسے واقعات کا سدباب کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس واقعہ کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ ملک بھر میں ایسے واقعات ہوتے ہیں، عموماً وزرائے اعلیٰ اور کبھی کبھی وزیراعظم بھی مظلوم خاندان کی دادرسی کیلئے انکے گھر جاتے ہیں۔ یہ ایک اچھا عمل ہے مگر ضرورت ایسے لوگوں کو مثالی سزائیں دلانے کی ہے جو معاشرے میں برائی کے ساتھ خوف و دہشت کی بھی علامت بنے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے اس بھیانک واقعہ کا نوٹس لیا ہے جس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ نااہل انتظامیہ کیخلاف تادیبی کارروائی کے ساتھ سفاک مجرم کو بھی عبرت کا نشان بنانے میں قانون کو بروئے عمل لایا جائیگا۔