زینب کے ورثا نے سی سی ٹی وی فوٹیج دی، پولیس نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا

لاہور (احسان شوکت سے) قصور میں سات سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے اور نعش کوڑے کے ڈھیر سے ملنے کے دلخراش واقعہ پر پولیس کی روایتی بے حسی و ہٹ دھرمی دیکھنے میں آئی ہے۔ جبکہ پولیس فائرنگ سے مظاہرین کی ہلاکتوں پر مشتعل ہجوم کو کنٹرول کرنے کیلئے قائم کی گئی اینٹی رائٹ فورس کی تشکیل کے بلندوبانگ دعووں کی بھی قلعی کھل گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق صوبہ بھر میں معصوم بچیوں کے اغواء اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ سال 2017ء میں 3 ہزار 1 سو 47 بچیوں و خواتین کو زیادتی جبکہ 1 سو 86 بچیوں و خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ قصور میں ایک برس کے دوران 12 بچوں کے اغوائ، زیادتی اور قتل کے واقعات 2 کلومیٹر کے ایریا میں رونما ہو چکے ہیں مگر پولیس نے معاملہ نپٹانے کیلئے گزشتہ ماہ ایک شخص کو پولیس مقابلے میں ’’پار‘‘ کرکے اعلیٰ کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹا کہ بچیوں کے ساتھ زیادتی و قتل کے ملزم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہے مگر پھر ایک اور انسانیت سوز واقعہ رونما ہو گیا اور عمرہ کی سعادت کیلئے سعودی عرب گئے میاں بیوی کی کمسن سات سالہ بیٹی اغواء اور چار روز بعد اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے مل گئی۔ پولیس بچی کے اغواء کے بعد اسے بازیاب کرانے کی بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش تماشائی بنی رہی۔ جبکہ بچی کے اغواء کے اگلے روز ورثاء نے خود پیروالا روڈ پر واقعہ ایک بیکری ’’الخلیل بیکری‘‘ کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمرے سے بچی کو لے جاتے ہوئے ایک شخص کی فوٹیج حاصل کی اور پولیس کو فراہم کی مگر پولیس پھر ٹس سے مس نہ ہوئی اور منگل کی صبح بچی کی لاش مین شہباز روڈ پر خالی پلاٹ میں کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔ مقتولہ بچی کے بڑے بھائی ایف ایس سی پری میڈیکل کے طالب علم ابوذر امین نے نوائے وقت کو بتایا کہ جب ڈی پی او قصور ذوالفقار علی سرکاری جیپ پر وہاں آئے تو اس نے گاڑی سے نیچے اترنے سے انکار کر دیا اور کہا وہاں سے بدبو آ رہی ہے۔ پولیس کی روایتی بے حسی کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ یاد رہے کہ 12 ستمبر 2013ء میں مغلپورہ لاہور کی پانچ سالہ بچی سنبل کے اغواء اور زیادتی کا واقعہ سامنے آیا تھا تو اس وقت کے وزیراعظم، چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراعلیٰ کے نوٹس کے باوجود تاحال ملزم آزاد پھر رہے ہیں اور ان کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ اب پھر تمام حکام اس واقعہ پر وہی تاریخ دہرا رہے ہیں۔ دریں اثناء پولیس نے قصور میں بربریت اور پولیس گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعہ پر احتجاج اور انصاف مانگنے والے نہتے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کر دی جس سے 3 قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع اور 5 افراد زخمی ہوئے اور حالات پولیس کے کنٹرول سے باہر ہو گئے۔ ضلعی انتظامیہ نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہر کی تمام اہم شاہراہوں پر سٹریٹ لائٹس بند کر دیں مگر مظاہرین نے لاشیں سٹیل باغ چوک اور لاہور قصور بائی پاس روڈ پر رکھ کر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد حکومت اور پولیس حکام نے مشتعل مظاہرین سے نمٹنے اور ہجوم کو کنٹرول کرنے کیلئے اینٹی رائٹ فورس قائم کی جس کے لئے افسروں کو ترکی کے دورے کرائے گئے اور انہیں ترکی سے خصوصی تربیت بھی فراہم کی گئی مگر گزشتہ روز اینٹی رائٹ فورس کہیں نظر نہ آئی۔

ای پیپر دی نیشن