چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سندھ میں اسپتالوں کی ابتر صورتحال کا ازخود نوٹس گزشتہ دنوں لیا۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں دوران سماعت چیف جسٹس نے سندھ میں اسپتالوں کی ابتر صورتحال پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری صحت سے استفسارکیا کہ سندھ میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے الحاق رکھنے والے کتنے تعلیمی ادارے ہیں؟۔سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہونے جواب دیا کہ سندھ میں کل 53میڈیکل کالجز ہیں جن میں 15نجی تعلیمی ادارے شامل ہیں، سندھ میں بارہ نجی ڈینٹل کالج ہیں جبکہ پانچ پرائیوٹ میڈیکل یونیورسٹی موجود ہیں ، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ پانچ سو بیڈ والے کتنے اسپتالوں کیساتھ میڈیکل کالجز ہیں؟ سیکریٹری صحت نے بتایا کہ کراچی میںآغاخان اور ضیاء الدین بڑے اسپتال ہیں اور میڈیکل کالجز اور یونیورسٹی ان کے ساتھ ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صرف پیسوں ہی سے تعلیم دلوائی جا سکتی ہے؟ایسے بھی ڈاکڑز دیکھ رہے ہیں جنہیں بلڈ پریشر چیک کرنا بھی نہیں آتا، نجی کالجز پندرہ پندرہ لاکھ روپے لے رہے ہیں، ایک اسٹینوگرافر کا بھی حق ہے کہ اس کا بیٹا ڈاکٹر بنے۔یہ تو سندھ کے حوالے سے بات تھی لیکن پورے پاکستان میں صحت کی سہولیات نا کا فی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحت کا شعبہ انتہائی بد ترین حالت میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں 60 فیصد لوگ نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور نجی اسپتال بھی اب خدمت کے نام پر لوٹ مار کر رہے ہیں۔2016ء میںاسپتالوں کی رینکنگ کے عالمی ادارے ’’رینکنگ ویب آف ہاسپیٹلز‘‘ نے اسپتالوں کی رینکنگ جاری کی ، جس کے مطابق پاکستان کا کوئی سرکاری اسپتال دنیا کے ساڑھے5 ہزار بہترین اسپتالوں میں شامل نہیں۔اسلام آباد کا’’ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘‘ یعنی پمز جسے پاکستان کا بہترین اسپتال مانا جاتا ہے وہ بھی دنیا کے بہترین اسپتالوں کے مقابلے میں کچھ نہیں۔دنیا کے بہترین اسپتالوں میں پمز کی رینکنگ 5 ہزار 911 نمبر پر رہی ہے۔ملک کی آبادی 20کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے، اسپتالوں کی یہ تعداد انتہائی ناکافی ہے لہٰذا چھوٹے شہروں اور قصبوں کو تو جانے دیجیے، بڑے شہروں میں سرکاری سپتال زبوں حالی کی منہ بولتی تصویر بنے ہوئے ہیں۔متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ (جو کل آبادی کا 70فیصد کے لگ بھگ ہیں) انہی سرکاری اسپتالوں میں علاج کروانے پر مجبور ہیں، جہاں ہر قسم کی طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ناقص حکمت عملی اور غیر سنجیدہ رویئے کے باعث صحت کی صورتحال سنگین اور مختلف بیماریوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے،پاکستانی کبھی ڈینگی، سوائن فلو اور خسرہ جیسی وباؤں سے مر رہے ہیں تو کبھی پولیو جیسی بیماری عمر بھر کی معذوری دے کر ان کی زندگی کو موت سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ ڈاکٹر، ادویات اور دیگر سہولیات سے محروم مریض کاسرکاری اسپتالوں میں کوئی پْر سانِ حال نہیں۔ وطن عزیز میں شعبہ صحت کی بدحالی کے ذمہ دار صرف حکمران ہی نہیں، اس تباہی میں بیوروکریسی اسپتالوں کی انتظامیہ، ڈاکٹرز و دیگر اسٹاف نے بھی کردار ادا کیا ۔ہر دور حکومت میں حکمرانوں نے شعبہ صحت کی بدحالی کا رونا روتے ہوئے اس کی بحالی کے لئے انقلابی اقدامات اٹھانے کے دعوے کیئے لیکن حقائق ہمیشہ اس کے برعکس رہے۔ حکمران شعبہ صحت کی بحالی میں کس قدر سنجیدہ ہیں، اس کا ایک اندازہ ہیلتھ بجٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان آج بھی مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2 فیصد شعبہ صحت پر خرچ کرتا ہے۔اس حوالے سے ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ صحت کے لئے مختص بجٹ بھی شفاف طریقے سے مکمل طور پر استعمال نہیں کیا جاتا۔20وڑ کی آبادی کے لئے چند ہزار سرکاری علاج گاہیں اور ان میں بھی ادویات، ڈاکٹر، پیرا میڈیکل ا سٹاف، بیڈز اور دیگر مشینری کی کمی نے مسائل کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ حکومت کی طرف سے شعبہ صحت میں اقدامات کرنے کے باوجود اس حقیقت سے بھی انکا رنہیں کیا جا سکتا بدانتظامی اور وسائل کے درست استعمال کا فقدان شعبہ صحت میں جا بجا دکھائی دیتا ہے۔شعبہ صحت کے انتظامی معاملات، سروس اسٹرکچر اور سیکیورٹی جیسے معاملات حل نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں کی ہڑتالیں معمول بن گئی ہیں۔ اسپتالوں میں ادویات ہیں اور نہ مطلوبہ ڈاکٹرز۔ جو موجود ہیں وہ بھی اپنا کام احسن طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہیں۔ تمام سرکاری اسپتالوں کے حالات یہ ہیں کہ انسانیت اسپتالوں کی راہ داریوں میں سسکتی رہتی ہے۔ملک بھر میں شاید ہی کوئی ایسا سرکاری اسپتال ہو جہاں غریبوں کو مکمل احترام کے ساتھ علاج معالجے کی سہولت میسر ہو۔ہر سرکاری اسپتال میں مریضوں کی خواری روزانہ کا معمول ہے، کوئی علاج کیلئے ترس رہا ہے تو کسی کی باری ہی نہیں آ رہی جبکہ ہسپتال کے گارڈز اور ڈاکٹرز کا مریضوں کے لواحقین ساتھ مار پیٹ معمول بنتا جارہا ہے۔ لواحقین کا کہنا ہوتا ہے کہ اسپتال عملہ پیسے لئے بغیر اندر نہیں جانے دیتا اور ڈاکٹرز کی توجہ مریضوں پر کم ہوتی ہے اگر انہیں کہا جائے تو لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔سرکاری علاج گاہوں میں بیٹھے ڈاکٹرز کے رویوں کی شکایات زبان زد عام ہیں لیکن مقتدر حلقے اس کا نوٹس نہیں لیتے۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز و دیگر اسٹاف کی کمی درست لیکن جو موجود ہیں انہیں تو مریض سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیئے۔سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کا مشورہ دیتے ہیں جس کی بڑی وجہ اسپتالوں کی لیبارٹریوں میں تعینات ناتجربہ کارعملہ اور مشینری کی کمی ہے۔ہیلتھ سیکٹر میں خرابیوں اور ذمہ داروں کے تساہل اور عدم توجہ کا نتیجہ ہے کہ آبادی کا 70 فیصد اپنے علاج معالجہ کیلئے پرائیویٹ کلینکوں اوراسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہے۔ حکومت کی طرف سے سرکاری اسپتالوں کو عوام کے علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کیلئے اربوں روپے کے فنڈز فراہم کیئے جاتے ہیں۔ ضروری ہے کہ یہ فنڈز خوردبرد نہ ہوں اور غریب مریضوں کو بہتر سہولتیں ملیں۔ صحت کے شعبے میں ترقی کیئے بغیر کوئی بھی ملک ترقی کی منازل طے نہیں کر پاتا جبکہ علاج تک رسائی کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے۔حکومت کا فرض ہے کے صحت کے شعبے پر توجہ دے کر عام آدمی کی رسائی ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ سال 2018 ء میں سپریم کورٹ کی توجہ صحت اور تعلیم پر ہوگی۔ چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سب ملی بھگت ہے،عدالتی حکم پرعمل نہیں ہوتا،چاہے انتظامیہ ہو یا کوئی اوراب ہمارے حکم پرسب کوعمل کرنا ہوگا۔ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کے متحرک ہونے کے بعد سب متحرک ہوتے ہیں۔کیا چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس کے بعد پاکستان میں صحت کی صورتحال بہتر ہوجائے گئی یہ ایک ایسا سوال ہے ،جس کاجواب آنے والا وقت دے گا۔