وزیر اعظم عمران خان نے تحقیقات کے بعد سوئی ناردرن اور سدرن کے سربراہوں کو نوکری سے نکال دیا ہے۔ دونوں پر الزام ہے کہ انہوںنے گیس کے حالیہ ملک گیر بحران پر قابو پانے کی کوئی پیشگی تیاری نہیں کی جس کی وجہ سے کراچی جیسا کاروباری اور صنعتی شہر عضو معطل بن گیاا ور وہاں روز مرہ کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
گیس کے بحران پر تو قصورواروں کو قرار واقعی سزا مل گئی مگر بجلی کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے وزیراعظم نے سختی سے ہدائت کی ہے کہ متعلقہ محکمے بجلی کی چوری کو روکیں اور اس کے لئے قصوروار لوگوں کو سخت سزائیں دیں،گیس چوری کو بھی روکنے کے لئے یہی ہدایت کی گئی ہے۔ اس وقت ملک میں گیس اور بجلی کی شدید کمی درپیش ہے اورا س کے کئی ایک اسباب ہیں جن میں چوری سر فہرست ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے تو کہا ہے کہ بجلی کے منصوبے آئی پی پیز کے معاہدے گلے کا پھندا بن گئے ہیں اور ملک کو بجلی ملتی نہیں لیکن گردشی قرضے کھربوں سے تجاوز کر گئے ہیں۔ ان دنوںموسم کی ٹھنڈک کی وجہ سے بھی گیس اور بجلی کی سپلائی میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی شدید ٹھنڈ کی وجہ سے بجلی کا نظام ٹرپ ہو جاتا ہے مگر ہمارے ہاں موسمی اثرات ضرورت سے زیادہ ہمارے سسٹم کو خراب کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سسٹم کے نقائص ہیں اور اس کا غیر معیاری ہونا بھی ایک قومی المیہ ہے۔ ہم گھٹیا سامان لگانے کے عادی ہیں اور کمیشن خوری کے چکر میں غیر معیاری سازو سامان استعمال کر کے ملک اور قوم کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ان دنوں ہمارے ڈیمز بھی خالی ہیں یاا نہیں اس وجہ سے چالو نہیں کیا گیا کہ نہروں کی بندش کا سیزن ہے جس کی وجہ سے بجلی کی پیداور خود بخود کم ہو گئی ہے۔ مگر اس کمی کو پورا کر نے کے لئے متبادل کے طور پر تھرمل، گیس یا کوئلے سے چلنے والے پراجیکٹ لگائے گئے ہیں۔ ایوب خان نے سندھ طاس کے معاہدے کے تحت تربیلہ اور منگلا دو بڑے ڈیم بنا لئے مگر اس کے بعد سے ہم نے ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا اور کوئی بڑا یا چھوٹا ڈیم نہیں بنایا یا بنانے نہیں دیا گیا۔ کس قدرستم ظریفی ہے کہ جناب چیف جسٹس نے قومی اتفاق رائے سے بھاشہ اور مہمند ڈیم کے منصوبوں کے لئے فنڈ ریزنگ شروع کی۔ مگر اعتراض کرنے والے میدان میں آ گئے ہیں جس کی وجہ سے مہمند ڈیم کی افتتاحی تقریب مؤخر کرنا پڑی ہے۔ اب یہ پتہ نہیں کہ کل کو بھاشہ شروع ہوتا ہے تو بھارت۔ اورامریکہ اس پر کیاا عتراض اٹھاتے ہیں یاخود ہماری سیاسی قیادت کیا کیا گل کھلاتی ہے۔ ایک کالا باغ ڈیم تو پچھلے چالیس برسوں سے کاغذی حد تک مکمل پڑا ہے مگر عملی کام کسی نے نہیںکرنے دیا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو پانی کی قلت کا شکار کر کے معاشی طور پر زندہ رہنے کے قابل نہ چھوڑنا بھارت کی سازش ہے۔ وہ خود بھی پاکستان کے حصے کے دریائوں جہلم اور چناب پر ڈیم بنانے میں مصروف ہے تاکہ پاکستان کو پانی کی سپلائی کم ہو کر رہ جائے۔ ا سکی وجہ سے ہمارے آبی ماہرین کے مطابق پاکستان بیس سوپچیس تک پانی کے سنگین قحط کا شکار ہو جائے گا اور ہمارے زرخیز ترین کھیتوں میں خاک ا ڑتی نظر آئے گی اور بھارت کی یہ دھمکی پوری ہو جائے گی کہ بوند بوند کو ترسے گا پاکستان۔ پیاسا مرے گا پاکستان۔ قبرستان بنے گا پاکستان۔ ایک طرف ہمارے ازلی دشمن کے یہ مذموم اعلانیہ منصوبے ہیں اور دوسری طرف ہم بھی اس کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
جب کسی قوم کو ایک مسئلہ درپیش ہو تو پھر ہر مسئلہ درد سر بن جاتا ہے اور مسئلے کے حل کا سرا ہاتھ نہیں آتا۔ یہی ہمارا حال ہو رہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں بجلی کی کمی واقع ہوئی تو تھرمل منصوبے لگائے گئے جن سے بجلی مہنگی ہو گئی۔ نواز شریف کو بجلی کے بحران نے آن لیا اور انہوںنے فوری حل نکالنے کے لئے آئی پی پیز کا راستہ اختیار کیا اور یہ حل واقعی ہمارے گلے کا پھندہ ہے کیونکہ بجلی بنے یا نہ بنے، حکومت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ ان اداروں کے اخراجات ادا کرے۔، یہی گردشی قرضے جمع ہوکر ہمارے لئے وبال جان بن گئے ہیں۔ دوسری طرف سستی بجلی پیدا کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے ہائیڈل مگر قومی لیڈر شپ نے شاید اپنا ضمیر بھارت کے ہاتھوں فروخت کر رکھا ہے اور ان منصوبوں کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں، حکومت بے چاری مجبور ہو کر مہنگی بجلی کے منصوبے لگاتی ہے جو ہماری ضروریات تو پوری کر سکتے ہیں مگر ان کے بل عوام کی استطاعت سے باہر ہیں اور وہ بلبلااٹھتے ہیں۔ گیس اور بجلی کی کمی کی وجہ سے نہ صرف گھریلو زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ کاروبار اور صنعت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ ایک شیطانی چکر ہے جس میں پاکستان بری طرح پھنسا ہو اہے۔
گیس اور بجلی کی کمی کی ایک وجہ ان کی چوری ہے جو بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔ ملک کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سرکاری بل کی عدم ادائیگی کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ کہیں متعلقہ محکموں کے ملازمین کی ملی بھگت سے گیس اور بجلی چور کی جاتی ہے کہیں دھونس جما کر چوری کی جاتی ہے اور کہیں اسے پیدائشی حق سمجھ کر ناجائز طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ بڑے زمیں دار ہوں یا بڑے کارخانہ دار یا بڑے سیاست دان وہ بل کی ادائیگی کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ کہیںکنڈی لگا کر بجلی چوری کی جاتی ہے۔ کہیں زمین میںپائپ بچھا کر گیس چوری کر لی جاتی ہے۔ لوہے کی بھٹیوں میں گیس چوری عام ہے اور متعلقہ ادارے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، کہیں انہیں آنکھیں بند رکھنے کا عوضانہ مل جاتا ہے اور کہیں انہیں بااثر افراد آنکھیں دکھا کر سینہ زوری کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے آئین اورقانون کی پاسداری کا نعرہ لگایا ہے اور ہر طرح کی کرپشن کے خاتمے کی کوشش کی جا رہی ہے،۔ وزیراعظم ملک کے اندر ہی نہیں باہر جا کر بھی اعلان کرتے ہیں کہ وہ چوروں ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑیں گے۔ قوم کے خزانے سے کھیلنے والے کسی نرمی کے مستحق نہیں اور جو لوگ بھی گیس یا بجلی چوری کرتے ہیں، ان کا بھی سختی سے محاسبہ کرنے کی ہدائت جاری کی گئی ہے، وزیراعظم کی سخت گیر پالیسی کے تحت اب بجلی چوروں کے میٹر اتارے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ لوگ ایک تو پچھلابل ادا کریں گے اورآئندہ بھی باقاعدگی سے ادائیگی کریں گے توا س سے معیشت مستحکم ہو گی۔اور قومی وسائل حقدار لوگوں کو میسرا ٓئیں گے، ان کی لوٹ مار نہیں ہو سکے گی۔کنڈے کی روایت بھی ختم ہونی چاہئے اور جن قبائلی علاقوں میں بجلی چوری حق سمجھا جاتا ہے، انہیں اس بات کا قائل کرنا چاہئے کہ وہ قومی ترقی میں ہاتھ بٹائیں، اور قومی وسائل کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ نہ کریں۔
وزیراعظم عمران خان ہر قسم کے استحصال کے خلاف ہیں اور ان کی کوششیں جاری رہیں تو اس سے معیشت کو پٹری پر لانا ممکن ہو جائے گا۔