پاکستان کا پاسپورٹ دنیا بھر کے بُرے پاسپورٹ کی فہرست میں تاحال موجود ، یہ فہرست ہر سال ہینلے پاسپورٹ انڈیکس کی جانب سے شائع کی جاتی ہے، جسے پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ ملک یہاں تک پہنچا کیسے؟ جس پاسپورٹ کی چند دہائیاں پہلے دنیا بھر میں عزت تھی، بھرم تھا، عروج تھے اور ایک خاص پہچان تھی۔ پھر اسے زوال کیسے آگیا؟ کیسے دشمن ہمارے جڑوں میں سرائیت کر گیا؟ کیسے گزشتہ 4دہائیوں میں ملک میں کرپشن، ناقص امن و امان، لوٹ کھسوٹ، جہالت، اُجارہ داریاں، تباہ حال ادارے، کرپشن زدہ سیاستدان، بے ہنگم زندگی، قوانین کی بے توقیری اور غیر فطری اقدامات اس ملک کا مقدر بن گئے؟ حالیہ فہرست میں سبز پاسپورٹ تین درجے بہتری کی جانب ضرور بڑھا ہے لیکن تاحال دنیا کے بُرے ترین پاسپورٹ کی فہرست میں ہی موجود ہے جہاں اسے دنیا کا 5واں برا ترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے۔گذشتہ فہرست میں 104 ممالک کی فہرست میں سے پاکستان کے پاسپورٹ کو 102واں درجہ حاصل تھا لیکن اب پاکستانی پاسپورٹ تین درجے بڑھ کر پانچویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ دنیا کے برُے ترین پاسپورٹس کی فہرست میں پانچویں نمبر پر آ کر پاکستان نے محض صومالیہ، شام،افغانستان اور عراق کو پیچھے چھوڑ اہے۔
آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟کس لیے آئے ہیں؟ کہاں جانا ہے؟ آپ کی پہچان کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جو ہم سے شاید دیار غیر میں پوچھے جاتے ہوں، اور ہم بطور پاکستانی اپنی صحیح شناخت بتانے سے قاصر رہتے ہیں کیوں کہ گزشتہ چند سالوں سے پاکستان کی بیرون ملک حالت افریقی قحط زدہ ممالک کی اہمیت جتنی ہی رہ گئی ہے۔ اورجب دیارِ غیر میں آپ کو صرف پاکستانی ہونے کی بناء پر دھوکے باز کا طعنہ سننا پڑجائے تو حالت بھی غیر ہوجاتی ہے۔ شاید میری طرح اور بھی ہزاروں پاکستانیوں کو ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا رہا ہو۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب کوئی آپ کی بات کرتا ہے تو وہ کچھ عرصے بعد بھول جاتی ہے لیکن جب کوئی ملک یا قوم پر بات کرے تو مرتے دم تک یاد رہتی ہے۔ میں بذات خود کئی دفعہ بیرون ملک گیا، وہاں کی ترقی، وہاں کے حالات ، لوگوں کا اُٹھنا بیٹھنا سب کچھ بھلا لگتا ہے، ہمیں جہاں خوش و خرم تمنائوں اور فخر کے ساتھ گوروں کو پاسپورٹ دکھانا چاہیے وہاں ہم اپنی شناخت کو چھپانے میں ہی عافیت جانتے ہیں ۔
آپ بیرون ملک جائیں تو وہاں خاص طور پر امریکہ اور سوئٹزرلینڈ، فرانس، سپین، اٹلی، برطانیہ اور بہت سے ممالک کے ہوائی اڈوں پر پاکستان سے گئی ہوئی فلائٹ کا کاؤنٹر ہی الگ ہوتا ہے اور پاکستانی مسافروں کو کئی کئی گھنٹوں کی غیر ضروری چیکنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی مرتبہ تو بہت سے پاکستانی مسافروں کو ایسی شدید حزیمت بھی اُٹھانی پڑتی ہے جو کسی اور یورپی یا امریکی شہری کواُٹھانی نہیں پڑتی؛ کیونکہ اُن کے لیے چار سے پانچ کاؤنٹر ہوتے ہیں جن پر مسافروں کو چند منٹوں میں بھگتا دیا جاتا ہے۔جو فلائٹ پاکستان سے آتی ہے اس کیلئے صرف ایک کاؤنٹر ہوتا ہے اور وہ بھی 400 سے 500 مسافروں کیلئے، دو دو گھنٹے لائن میں لگے، سب سے آخر میں پاکستانیوں کی باری آتی ہے۔ کچھ امیگریشن افسران تو پاکستانی پاسپورٹ کو دیکھ کرایسی طنزیہ مسکراہٹ دیتے ہیں کہ ساری حب الوطنی ہوا ہوجاتی ہے۔گورے ایسا برتاؤ کریں تو سمجھ بھی آتی ہے لیکن ہمارا برادر اسلامی ملکوں میں بھی بسا اوقات پاکستانی پاسپورٹ کی ایسی عزت افزائی ہوتی ہے کہ طبیعت ہری ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی شخص پاکستانی فلائٹ سے ان ملکوں میں گیا ہو تو وہ جانتا ہے کہ پاکستانیوں کی کس طرح تذلیل کی جاتی ہے اور یہ کہ پاکستان سے آئے ہوئے مسافروں کو سب سے آخر میں رکھا جاتا ہے۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ آخر پاکستانی پاسپورٹ اس قدر بے توقیر کیوں ہے؟ اور پاکستانیوں کے ساتھ ہی امتیازی سلوک کیوں روا رکھا جاتا ہے؟ تو اس کا جواب بہت آسان ہے؛ اور وہ یہ کہ ہمارے حکمرانوں نے سوائے کرپشن کے دنیا میں کہیں اس جنت نظیر ملک کا نام پیدا نہیں کیا، ہر طرف کرپشن اور ناقص امن کی شنید سنائی جا رہی ہے، کہیں پاکستان کا مثبت چہرہ دکھانے کی کوشش نہیں کی جاتی، بھارت پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے اور پاکستان کے خلاف واویلا کرنے میں سرفہرست رہتا ہے اور اس کام کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر تاہے۔یعنی اوپر سے نیچے تک آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔حال ہی میں اقتدار چھوڑنے والے سابق حکمرانوں کی بات کریں تو اُنہوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد اور حکمرانی کو دوام دینے کیلئے قوم کی عزتِ نفس کو مجروح کیا اور اسی وجہ سے دنیا ہمیں کو ’’بھیک منگا‘‘ اور ’’دہشت گرد‘‘ سمجھتی ہے ، اسی لیے ہمارا پاسپورٹ بے توقیر ہے۔اس میں سابقہ دوجمہوری ادوار میں تو بیڑہ غرق ہی ہوگیا، مشرف کے دور تک پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے 60بہترین پاسپورٹ میں گنا جاسکتا تھا مگر اب دنیا میں بدترین پاسپورٹ بن کر رہ گیا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس جاپان سے تعلق رکھنے والے مسافر دنیا کے 190 ممالک میں بلاروک ٹوک جا سکتے ہیں۔ وہاں یا تو انہیں ویزے کی ضرورت ہی نہ ہوگی یا پھر پہنچنے پر ویزا لگا دیا جاتا ہے جبکہ سنگاپور اور جنوبی کوریا کے شہری انڈکس میں دوسرے نمبر پر ہیں اور وہ دنیا کے 189 ممالک میں بلاروک ٹوک آ جا سکتے ہیں۔ ہم جب کبھی سنگاپور کی برق رفتار ترقی کی مثال دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ 1957ء میں یہ چھوٹا سا ملک مچھیروں کی ایک پسماندہ سی بستی کے علاوہ کچھ نہ تھا مگر آج یہ جدید ترین ملکوں کی پہلی صف میں بے حد نمایاں ہے‘ تو یار لوگ کہتے ہیں جناب! یہ تو ایک ننھا منا ملک ہے اس کے مسائل کم تھے مگر ہم تو 22 کروڑ ہیں اور ہمارے مسائل بہت پیچیدہ ہیں۔ اس سادگی بیان پر ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ چلئے حضور ہم سنگاپور کی مثال نہیں چین کی ترقی کی مثال پیش کردیتے ہیں، جو ہم سے کم از کم پانچ گنا بڑا اور دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ بات کم یا زیادہ آبادی کی نہیں، بات وژن اور ارادے کی ہے۔ پسندیدہ ملکوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آنے والا ایشیا کا ایک اور ملک جنوبی کوریا ہے، جی ہاں وہی جنوبی کوریا جو 1960ء کی دہائی میں پاکستان کی تیز رفتار ترقی کو رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا۔ ہم اپنے توہمات و تعصبات میں گزشتہ نصف صدی سے ایسے الجھے ہیں کہ آج تک ہر چیز بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔
یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ جذبہ حب الوطنی اپنی جگہ، پاکستان کے لئے مر مٹنے کے نعرے اپنی جگہ، لیکن دنیا ہمارا رویہ دیکھتی ہے نہ کہ ہمارے نعرے۔ امریکہ سے ڈالر لے کر اپنے اڈے بیچنے ہوں یا اپنی حکومت بچانے کیلئے واشنگٹن کی چاپلوسی کرنی ہو، ہم اپنی عزت کا سودا کر آتے ہیں۔ معاملہ ایمل کانسی کا ہو یا ریمنڈ ڈیوس کا، ہم ہمیشہ ڈالروں کو ترجیح دیتے ہیں نہ کہ قومی وقار کو۔ ہماری ترجیح اپنے دورِ حکومت کو طول دینا ہوتی نہ کہ اپنی قوم کی عزت اور توقیر کا خیال رکھنا۔عوام کی بات کریں تو جہاں تارکینِ وطن کی ایک بڑی تعداد نے یورپ اور امریکہ میں اچھا نام کمایا ہے وہیں تارکینِ وطن پاکستانیوں کی بھی ایک کثیر تعداد یورپی اور امریکی معاشرے میں بدنامی کی وجہ بن رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے اپنے شہریوں کو سہولتیں دینے کیلئے بہت سے اچھے اصول بنائے ہیں جیسے کہ بینکوں سے آسان قرضے، شادی کے ذریعے پاسپورٹ ملنا، تھوڑے ایڈوانس پر بیش قیمت سامان ملنا، وزٹ ویزہ وغیرہ۔مگر ہمارے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ان قوانین کا غلط استعمال کرکے راتوں رات امیر تو ہوجاتی ہے اور غیرملکی پاسپورٹ بھی لے لیتی ہے لیکن پاکستان کی عزت کا جنازہ بھی نکال دیتی ہے۔ ایسی غلطیاں اور جرائم بیشک پوری پاکستانی آبادی کا بہت کم حصہ کرتا ہے لیکن بدنام ساری قوم ہوتی ہے۔ کہیں سنا تھا کہ دیارِ غیر میں ہر شخص اپنی قوم کا سفیر (ایمبیسیڈر) ہوتا ہے۔
پچھلے 72 سالوں میں ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور عوام کی بے وقوفیوں اور غلط کاریوں کی وجہ سے آج ہم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ کوئی ملک ایک عام پاکستانی کو اپنا ویزہ نہیں دینا چاہتا۔ اگر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر امریکہ یا یورپ کا ویزا مِل بھی جائے تو ایئرپورٹ پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ایئرپورٹ سے اگر خوش نصیبی سے بچ نکلیں تو سسٹم میں جگہ جگہ یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ پاکستانی پاسپورٹ ہے۔جن ملکوں کے پاسپورٹ کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ ڈالروں کے عوض اپنی عزت اور خود داری کا سودا نہیں کرتے۔ اْن ممالک کی اکثریت قانون کی پاسداری کرتی ہے اور دھوکہ دہی کو بہت بڑا جرم سمجھتی ہے۔ ہم پاکستانی لوگ فطرتاً جذباتی ہیں۔
لہٰذاہم اپنی سفارتکاری کو موثر و فعال بناکر، اپنی جنت نظیر وادیوں اور تاریخی مقامات تک زیادہ سیاحوں کو راغب کرکے اور وطن عزیز کے مجروح سافٹ امیج کو بحال کرکے نہ صرف مذکورہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے بلکہ اپنی کرنسی مستحکم کرنے، معدنی وسائل کو بروئے کار لانے، معیشت بہتر بنانے اور اقوام عالم میں وقار بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔اوریہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے پاسپورٹ کی اہمیت کو اجاگر کریں ، اس کے لیے تجربہ کار ٹیم تشکیل دیں،اور ایسے مثبت اقدامات کریں جس سے دنیا میں پاکستان کا مثبت تاثر قائم ہو۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا ہمیں اور ہمارے پاسپورٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا!
پاکستانی پاسپورٹ ناپسندیدہ : مثبت اقدامات کی ضرورت
Jan 11, 2019