’’حاشیہ برداروں سے جان چھڑائیں‘‘

عمران خان کی نیت اور ایمانداری یقینا شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اپوزیشن کے تمام سیاستداں اور میڈیا بھی ان پر حرف نہیں اٹھاتے۔ اب تک عمران خان نے بطور وزیراعظم جتنے بھی بیرون ممالک کے دورے کئے ان پر آج تک کوئی بھی یہ الزام نہ لگا سکا کہ انہوں نے ان دوروں سے اپنے ذاتی تعلقات بنائے یا کوئی ذاتی فوائد حاصل کئے۔ ان کے اب تک کے (حالیہ ترکی کے دورے تک) بیرونی ممالک دوروں کے واضح مقاصد میں ملک کی تیزی سے گرتی معیشت اور سپورٹ کی صورتحال کو قابو کرنا اور اسے ترقی دینا رہا ہے۔ اس کے کچھ مثبت نتائج بھی سامنے آئے۔ ترکی کے دورے کے فوری بعد بارہ سال بعد ابوظہبی کے حکمران کا پاکستان کا دورہ اور ان کا پاکستان میں گرمجوشی سے استقبال پاکستان کیلئے نیک فال ثابت ہوسکتا ہے۔ ابوظہبی کے حکمران شیخ محمد بن الہنیان کے پاکستان کے حالیہ دورے سے جہاں پاکستان کی معیشت کو تین ارب ڈالر کا سہارا مل جائے گا وہیں پاکستان کی عالمی تنہائی کے خاتمے کا باضابطہ آغاز بھی ہوگیا۔ اب شنید ہے کہ سعودی عرب کے نوجوان ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر عنقریب آنے والے ہیں اور وہ یہاں ممکنہ طور پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کریں گے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان سنگاپور کا بھی دورہ کرچکے ہیں وہاں سے بھی سرمایہ کاری کی نوید سنائی جارہی ہے۔ عمران خان کی کمٹمنٹ اور ان کا خلوص اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق بھی کچھ اور کہانی سنارہے ہیں۔ وزیراعظم کی گونا گوں مصروفیات سے آس پاس کے لوگ عموماً توتغافل برتتے ہیں یا انہیں صحیح اطلاعات نہیں پہنچاتے۔ سب اچھا ہے کا راگ شاہ ایران کو بھی لے ڈوبا تھا۔ اب یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہورہا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عمران خان لاعلمی اور گمراہ کن اطلاعات کا شکار ہو کر غیر مقبول ہوتے چلے جائیں۔ اس کا براہ راست فائدہ اپوزیشن پارٹیوں اور ملک دشمن طاقتوں کو ہوگا ۔ ہر دور میں ہوتا چلا آیا ہے کہ حکمرانوں کے گرد مفاد پرستوں‘ موقع پرستوں اور سازشی عناصر کا ٹولہ گھیرا ڈال دیتا ہے ایک اچھے زیرک اور دوراندیش حکمران کا فرض ہوتا ہے کہ ان رکاوٹوں کو احسن طریقے سے دور کرے۔ اس وقت پنجاب‘ کے پی کے اور کراچی میں جہاں پی ٹی آئی کو مینڈیٹ حاصل ہے شدید انتظامی بدنظمی‘ بے چینی پائی جاتی ہے۔ عمران خان جو حتمی فیصلہ کرلیتے ہیں تو پھر اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخابات میں بھی وہ شدت کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ دراصل ان کا یہاں یوٹرن ڈاکٹر ائن کام نہیں کررہا جبکہ ہمارے خیال میں یہاں یوٹرن کی شدت کے ساتھ ضرورت ہے۔ وہ یہ نہ بھولیں پنجاب کے ضمنی انتخابات میں انہیں ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ وہ یہ بھی نہ بھولیں اگر آئندہ انتخابات میں مرکز میں حکومت بھاری اکثریت سے
بنانی ہے تو پنجاب میں بھی غیر معمولی کارکردگی دکھانا ہوگی جو تاحال نظر نہیں آرہی۔ پنجاب میں دو بڑے مسائل غلط حکمت عملی کی وجہ سے انتظامی امور میں پہاڑ کی طرح حائل ہیں۔ تیسرا اور چوتھا فیکٹر (ق) لیگ اور خودعثمان برادری کے افراد ہیں۔ دو بڑے مسائل میں بیورو کریسی اور پنجاب پولیس ہے جو آج بھی (ن) لیگ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ اگر یہ بات غیر جانبدار میڈیا اور مبصرین کو واضح نظر آرہی ہے تو پی ٹی آئی کے بڑوں کو کیوں نظر نہیں آرہی؟ بیورو کریسی اگر مطلوبہ نتائج نہیں دے رہی ہے تو انہیں بلوچستان یا کہیں اور صوبے میں ٹرانسفر کردیں۔ یہ دیکھ کر باقی بیورو کریٹس ازخود درست ہوجائیں گے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس تو نہیں۔ اسی طرح جس طرح کے پی کے میں پولیس کو ٹھیک کیا تھا پنجاب میں بھی وہی فارمولا اختیار کریں لیکن یہاں یہ امر مجبوری سمجھوتہ کرنے کا مقصد خود پی ٹی آئی کو لے ڈوبے گا۔ عمران خان یاد رکھیں پاکستان کی فی الحال آنے والی آخری امید خود عمران خان ہیں۔ بظاہر کوئی ایسی شخصیت سیاسی افق پر موجود نہیں (اگر اللہ پیدا کردے تو الگ بات ہے) جو ان جیسی مخلص اور پاکستان کا حقیقی معنوں میں درد رکھنے والی ہو۔ اگر عمران خان ناکام ہوئے تو پاکستان میں بہت بڑا سیاسی خلاء پیدا ہوجائے گا جو شدید بحران کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ اس خلاء کو پر کرنے کیلئے پھر قدرت حرکت میں آجائے گی۔ یہاں اب اگر کڑا اور بے رحمانہ احتساب (Across The Board) نہ ہوسکا جس کے آثار نظر آنے لگے گئے ہیں تو پھر اللہ کی لاٹھی چل سکتی ہے۔ وہ کسی بھی شکل میں نظر آسکتی ہے‘ جس کو کرپٹ عناصر آمر کہیں گے تو عوام نجات دہندہ ‘ ایک سینیٹر نے بھی حال ہی میں ان خیالات کا برملااظہار کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ایک پاگل حکمران کی ضرورت ہے جو دس سال کیلئے آئے اور کہے کہ ان دس سالوں میں کوئی الیکشن نہیں ہوگا صرف بے رحمانہ اور منصفانہ احتساب ہوگا‘‘ دیکھا جائے تو گزشتہ سالوں میں ملک کو جس مقام پر پہنچادیا گیا تھا وہاں سے واپسی کا سفر اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ آئینی ترمیمات کے ذریعے وفاق کونہ صرف کمزور کردیا گیا بلکہ اس کو عضو معطل کی طرح بے دست و پا کردیا گیا۔ کوئی یہ نہیں بتا سکتا ہے کہ ان ترمیمات سے ملک اور قوم کی کیا خدمت ہوئی۔ ان ترمیمات سے صوبے اپنے بڑھے ہوئے بجٹ پر بے دردی سے ہاتھ صاف کررہے ہیں۔ ملک کھوکھلا اور عوام بھوکے اور حکمران تگڑے‘ ان کے تمام اثاثے باہر اور کاروبار بھی باہر۔ ان سالوں میں ملک کے قرضے چھ ہزار ارب سے تیس ہزار ارب روپیوں تک پہنچادیئے گئے۔ یہ جمہوریت اور ان ترمیمات کی برکات کا نتیجہ ہیں۔ یہ پہاڑ جیسے قرضے عوام اپنے بھوک و افلاس کو مزید افزوں کرکے ادا کریںگے ۔کرپشن‘ منی لانڈرنگ‘ بے نامی ا ور جعلی اکائونٹس زندہ باد! نہ جیلیں ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے اور نہ احتساب۔ یہ اینگلو سیکسن (Anglo Saxon) نظام قانون ایسا ہے کہ ٹاپ کے وکلاء اپنی جادوئی اسپن (Spin) کے ذریعے اپنے مؤکل کو باد صر صر کی طرح نکال لے جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن