اسلام آباد(نوائے وقت نیوز) قومی اسمبلی میں حکومت نے نیب سمیت 6آرڈیننس واپس لے لئے، مذکورہ آرڈیننسز میں سے 4 (خواتین کا وراثتی جائیداد میں حصہ، قانون معاونت اتھارٹی، سکسیشن سرٹیفکیٹ، اعلیٰ عدلیہ ڈریس کوڈ آرڈیننس) کو بلوں کی شکل میں منظور کر لیا گیا۔ نیب ترمیم آرڈیننس 2019 اور بے نامی کاروباریہ معاملات آرڈیننس 2019مزید غورو خوض کیلئے قائمہ کمیٹیوں کو بھجوا دئیے گئے۔ جبکہ بچوںکے اغواء اور زیادتی کی روک تھام کیلئے زینب الرٹ (جوابی ردعمل، بازیابی )بل 2019اورمعذور افراد کے حقوق کا بل2018بھی قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور ہو گئے۔ زینب الرٹ بل کے تحت بچوں کو عصمت دری، اذیت دینے، غلام بنانے کی غرض سے اغواء کے مرتکب شخص کو عمر قید یا کم از کم 10سال اور زیادہ سے زیادہ14سال قید بامشقت اور 2کروڑ تک جرمانہ ہو سکے گا۔ بچوں کو منقولہ جائیداد ہتھیا نے کی غرض سے اغواء کرنے کے مرتکب شخص کو 14سال قید کی سزا اور10لاکھ جرمانہ ہو سکے گا۔ عدالت کو بچوں کے خلاف جرائم کا فیصلہ 3 ماہ کے اندر کرنا ہوگا۔ بچوں سے متعلق شکایات کیلئے 1099ہیلپ لائن قائم کی جائیگی ، جو سرکاری افسر2 گھنٹے کے اندر بچے کیخلاف جرائم پر ردعمل نہیں دے گا اسے بھی سزا ہو گی۔ وفاقی وزراء اسد عمر اور شیریں مزاری نے کہا کہ امید ہے سینٹ سے بھی یہ بل جلد منظور کیا جائیگا، جب طاقتور لوگوں کا کام سینٹ میں آتا ہے تو وہ عجلت سے منظور کیا جاتا ہے، امید ہے اسی عجلت سے یہ بل بھی منظور کیا جائیگا۔ آج تاریخی دن ہے یہ بل پاس کیا جا رہا ہے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا جس میں حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے کا غیر معمولی مظاہرہ ہوا۔ حکومت نے قومی اسمبلی میں 6آرڈیننس واپس لے لیے۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے آرڈیننسز کی تنسیخ کی تحریک ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے کے بعد بل آرڈیننس واپس لے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے عبدلاکبر چترالی نے احتجاج کیا کہ ہم سے اس حوالے پوچھا نہیں گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے سردارایاز صادق نے کہا کہ اس سے پارلیمنٹ کی عزت ہوگی، آرڈیننس کی جگہ بل اسمبلی میں پیش کرنے دئیے جائیں۔ چترالی صاحب کی بات درست ہے، آرڈیننس واپس لینے کے حوالے سے ان سے مشاورت نہیں ہو سکی، مشاورت میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی شامل تھی، ان کو موقف بیان کرنے کا موقع دیا جائے۔ عبدلاکبر چترالی نے کہا کہ حکومت نے مسلم لیگ (ن)کے ساتھ این آر او کیا ہے جسکی مذمت کرتے ہیں، ہم اس میں شامل نہیں ہیں ۔ ایم ایم اے کے ایوان میں 16ارکان ہیں، ان سے مشاورت ہونی چاہیے، بل جس طرح سے بلڈوز کئے جا رہے ہیں، ہم اسکی مذمت کرتے ہیں۔ سپیکر نے کہا کہ یہ اپوزیشن کا کام تھا کہ وہ سب سے مشاورت کرتے۔ جسکے بعد وزیر مملکت علی محمد خان نے آرڈیننسز کی تنسیخ کی تحریک ایوان میں پیش کی جسے ایوان نے رائے شماری کے بعدمنظور کر لیا۔تنسیخ کئے گئے آرڈیننس میں سکسیشن سرٹیفکیٹ آرڈیننس2019(آرڈیننس نمبر16بابت2019)، لیگل ایڈاتھارٹی آرڈیننس2019 آرڈیننس2019(آرڈیننس نمبر18بابت2019)، خواتین کے جائیداد میں حقوق سے متعلق آرڈیننس2019 (آرڈیننس نمبر17بابت2019)، اعلی عدلیہ کے ڈریس کوڈ آرڈیننس2019(آرڈیننس نمبر19بابت2019)،بے نامی کاروباریہ معاملات آرڈیننس2019(آرڈیننس نمبر20بابت2019)اور قومی احتساب نیورو(نیب) آرڈیننس(آرڈیننس نمبر21بابت2019) شامل ہیں۔آرڈیننس کی تنسیخ کے بعدحکومت نے یہی آرڈیننسز اسمبلی میں 6بلز کی شکل میں پیش کیے جن میں سے 4بلز وراثتی سرٹیفکیٹ بل ، قانونی معاونت وانصاف ،اعلی عدلیہ میں لباس اور خواتین کے جائیداد کے بلز کی کثرت رائے سے فوری منظوری دیدی گئی ۔ قومی احتساب بیورواور بے نامی لین دین سے متعلق 2 بلز مزید غور کے لئے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیئے گئے۔وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بچوں کے خلاف جرائم کے سدباب کیلئے زینب الرٹ جوابی ردعمل اور بازیابی ایکٹ 2019بل پیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔بل کے تحت18سال سے کم عمر بچوں کو عصمت دری،ازیت دینے ،غلام بنانے کی غرض سے اغواء کے مرتکب شخص کوعمر قید، کم از کم 10سال اور زیادہ سے زیادہ14سال قید بامشقت اور2کروڑ تک جرمانہ ہو سکے گا،بچوں کو منقولہ جائیداد ہتھیا نے کی غرض سے اغواء کرنے کے مرتکب شخص کو14سال قید کی سزا اور10لاکھ جرمانہ ہو سکے گا،عدالت کو بچوں کے خلاف جرائم کا فیصلہ 3 ماہ کے اندر کرنا ہوگا، گمشدہ بچوں سے متعلق ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا، 1099ہیلپ لائن قائم کی جائے گی جس پر بچے کی گمشدگی، اغوا اور زیادتی کی اطلاع فوری طور پر ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، ہوائی و ریلوے اڈوں، مواصلاتی کمپنیوں کے ذریعے دی جائے گی۔قانون کے مطابق جو سرکاری افسر2 گھنٹے کے اندر بچے کے خلاف جرائم پر ردعمل نہیں دے گا اسے بھی سزا دی جاسکے گی، 18سال سے کم عمر بچوں کااغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے، گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لئے زینب الرٹ جوابی ردعمل و بازیابی ادارہ قائم کیا جائے گا۔بل کی منظوری کے بعد اسد عمر نے کہا کہ جب زینب کیساتھ افسوسناک واقع ہوا تھا تو میں نے یہ بل تیار کر کہ دیا تھا،گزشتہ اسمبلی نے یہ بل پاس نہیں کیا،ڈاکٹرشیریں مزاری کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس بل کو حکومتی بل بنایا،امید ہے سینیٹ سے بھی یہ بل جلد منظور کیا جائیگا،جب طاقتور لوگوں کا کام سینیٹ میں آتا ہے تو وہ عجلت سے منظور کیا جاتا ہے،امید ہے اسی عجلت سے یہ بل بھی منظور کیا جائیگاکیونکہ یہ غریب بچوں کے تحفظ کا بل ہے۔ پی پی پی کی رکن مہرین رزاق بھٹو و دیگر ارکان نے کہا کہ آج زینب کی دوسری برسی ہے اور یہ بل منظور ہونا بڑا پیغام ہے،بل کے تحت 2گھنٹے میں مقدمہ درج کیا جائے گا،90دن میں ٹرائل مکمل کیا جائیگا اور ون ونڈو آپریشن ہو گا۔فہیم خان نے مطالبہ کیا کہ بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سرعام چوک میں پھانسی پر لٹکایا جائے،بل میں ایسے مجرموں کو چوک میں سزا دینے کی شق ڈالی جائے۔وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹرشیری مزاری نے کہا کہ اسد عمر کا شکریہ انہوں نے زینب الرٹ بل گزشتہ اسمبلی میں پیش کیا تھا،لیکن وہ منظور نہیں ہو سکا تھا، مہرین رزاق بھٹو کا شکریہ جنہوں نے کمیٹی میں اس بل پر بہت کام کیا اور اس میں بہتری لائی۔آج تاریخی دن ہے یہ بل پاس کیا جا رہا ہے۔ہم نے اس پر کام کیاہے پاکستان میں مجرموں کو سر عام لٹکانے کی کوئی گنجائش نہیں، اگر سر عام لٹکانے کی سزا دینا ہے تو قوانین میں ترمیم کر لیں، بچوں سے زیادتی کا معاملہ ہرجگہ اور ہر طبقے میں ہے ۔قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے معذور افراد کے حقوق کا بل2018بھی منظوری کیلئے پیش کیا جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ بچوں سے زیادتی کی روک تھام کے لئے قومی ایکشن پلان کا رواں ماہ آغاز کیا جا رہا ہے، مانسہرہ میں جس مدرسہ میں بچے سے زیادتی ہوئی اسے سیل کر دیا گیا ہے اور اس میں ملوث ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے، وزارت حوالے سے قانونی معاونت فراہم کر سکتی ہے۔ وہ قومی اسمبلی میں ارکان کے سوالوں کا جواب دے رہی تھیں۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ سابق حکومتوں نے کرک میں بجلی چوری کے واقعات کو تقویت دی‘ بجلی کی چوری پر قابو پانے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں‘ پشاور بنوں اور کرک تینوں سرکلز میں پیسکو کے ریونیو کا 75 فیصد نقصان ہو رہا ہے۔ سپیکر نے حکم دیا کہ کرک سے رکن قومی اسمبلی کے ساتھ بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کیا جائے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے وزارت داخلہ سے متعلق سوالات کے جوابات نہ آنے پر سیکرٹری داخلہ کو اپنے چیمبر میں طلب کرلیا۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ایوان میں جس جماعت کا جتنا عددی حصہ ہے آئندہ اس کو اتنا ہی وقت ملے گا۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں آرڈیننس واپس لئے جانے کی تحریک پیش کئے جانے کے دوران متحدہ مجلس عمل کے اراکین عبدالاکبر چترالی اور دیگر نے بات کرنا چاہی اور وہ مسلسل بولتے جارہے تھے جس پر سپیکر نے عبدالاکبر چترالی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں سب سے زیادہ ان کو وقت دیا جاتا ہے تاہم آئندہ جس جماعت کا جتنا حصہ ہوگا اس کو اتنا ہی وقت ملے گا۔ گورنمنٹ گرلز کالج مرغز صوابی کی طالبات اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی شریعہ اکیڈمی میں جوڈیشل اینڈ ایگزیکٹو افسران کے وفد نے قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی دیکھی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔