سینٹ کی مجلسِ قائمہ برائے داخلہ کے چیئرمین رہنما پاکستان پیپلز پارٹی رحمان ملک کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو وارننگ دی ہے کہ پاکستان کی سرحدیں محفوظ نہیں۔ ایوانِ بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر رحمان ملک نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اس وقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں قومی معاملات پر ہم سب کو اکٹھا ہو کر ہم آواز ہونا پڑے گا۔ انہوں نے لائن آف کنٹرول پر ہر روز بھارت کی خلاف ورزیوں کی بات کی اورکہا کہ بھارتی فوج وہاں بیگناہ شہریوں کو شہید کر رہی ہے۔ میری نظرمیں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ مگر ہمارے ہاں حکومت کے پاس بھارت کے زیر تسلط وادی کشمیر کے حوالے سے کوئی حکومتی پلان نہیں ہے جبکہ مسئلہ کشمیر پر دیانتداری کے ساتھ پوری سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ملکی سلامتی کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے وہ بات کس قدر غور طلب اور سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ توجہ طلب اور چونکا دینے والی بات کسی کے منہ سے ادا ہوئی ہے۔ دونوں باتیں اصحابِ اختیار اور محب وطن افراد امہّ کے لیے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پھر ایسے وقت میں محو خرام اربابِ اقتدار اور امور مملکت سے کوسوں دور اہلِ خرد کو جھنجھوڑنے کی سعی ہے۔ جب بھارتی فوج کے نئے اعلیٰ کمانڈر جنرل منوج مکنڈنروا نے اپنے دہشت گرد وزیر اعظم مودی کے طرز فکر و عمل پر عمل کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ بھارت فوج اپنی حکومت کے حکم کے فوری بعد آزاد کشمیر پر چڑھ دوڑنے کو تیار ہے اور بھارتی فوج کے پاس پاکستان کے کشمیر (آزاد کشمیر) میں آپریشن کے لئے کئی منصوبے ہیں اور بھارتی فوج کامیابی سے اپنے مقاصد حاصل کر لے گی۔ بلاشبہ بھارت کے کمانڈرانچیف کی پاکستان یا کسی بھی دوسرے ملک کے بارے میں اس قسم کی دھمکی میں اس قسم کی دھمکی کو عصر حاضر کے تناظر میں لغو سی بھڑک قرار دیا جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ بھارت کی فوج کے اعلیٰ کمانڈر کی اس بات پر خود بھارت میں بھی محب وطن لوگوں میں اظہار ناپسندیدگی کیا جا رہا ہو اور عسکری قیادت کی ایسی سوچ اور باتوں کو بھارت کو نیست و نابود کرنے اور اسے ایک بار پھر مختلف ریاستوں میں ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی درپردہ سازش سے تعبیر کیا جا رہا ہو مگر جہاں تک پاکستان کے بارے میں اس قسم کی ہرزہ سرائی اور پاک عزائم کے اظہار کا تعلق ہے اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کر کے قومی سلامتی اور دفاع وطن کے لیے پوری چوکس اور چوکنا رہنے کے ساتھ نہ صرف پوری سنجیدگی کے ساتھ تمام سیاسی مکاتب فکر کے ساتھ مل کر ہم آواز ہونے کی ضرورت ہے بلکہ اس حوالے سے کسی ایسی منصوبہ بندی کی طرف موثر اور ٹھوس اقدامات بھی اٹھانے میں کسی تساہل سے کام نہیں لینا چاہئے جس پر عمل درآمد کے ساتھ ہی قوم و ملک کی سلامتی کے بدخواہ بھارت کے اربابِ اختیار اور متعصب بھارتی حکومت پر یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہو جائے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کی سلامتی اور اس کے عوام کو نقصان پہنچانے کی کوئی بھی دانستہ یا نادانستہ معمولی سی حرکت بھی خود بھارت کی تباہی پر منتج ہو گی کیونکہ پاکستان اب روایتی جنگ اختیار کرنے کے طور طریقوں سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ پاکستانی قوم نے انتہائی کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے عملی طور پر اپنا پیٹ کاٹ کر نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں اللہ کریم کی مدد سے جو کامیابیاں حاصل کیں، ان کا واحد مقصد بھارت ایسے زہریلے سانپ کا سر اٹھانے سے پہلے ہی اپنے نیوکلیائی کوششوں کے ثمر سے کچل دینا ہے۔ بلاخوف و تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تکبر، نخوت اور غرور کے نشے میں مست بھارت کے کسی بھی عہدے دار نے پاکستان کے خلاف کوئی سی بھی جارحیت کا اقدام کیا تو بھارت کے روایتی ہتھیار دھرے کے دھرے رہ جائیں کیونکہ پھر اس کے نتیجے میں اپنے نقشے میں تبدیلی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔تاہم جہاں تک بھارت میں دہشت گرد وزیراعظم مودی کے منصوبے کے تحت مسلمان دشمن شہریت ایکٹ کے نفاذ اور متنازعہ مقبوضہ کشمیر کی تاریخی حیثیت ختم کرنے کی آئینی ترمیم اور اس کے نتیجے میں احتجاج کرنے والے عوام پر ریاستی دہشت گردی اور بدترین قسم کے مظالم کا تعلق ہے تو اس حوالے سے پاکستان کی طرف سے عالم اسلام اور بیرونی دنیا کو حقیقت حال سے پوری طرح آگاہ کرنے کی خاطر طویل المدت منصوبہ بندی کی اولین ضرورت ہے۔
ایسی منصوبہ بندی کے بغیر کشمیر اور بھارت کے کم و بیش بائیس کروڑ مسلمانوں کی حالت زار کو ظاہر کئے بغیر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا نہیں جا سکتا۔ اس حوالے سے حصول مقصد کیلئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ضرورت اور اہمیت کو اولیت نہ دینا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے جہاں صرف منہ زبانی باتوں سے کام چلایا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت جیسے پاکستان اور اس کے عوام کی سلامتی اور تباہی کے خواہاں ملک کے عزائم اور وہاں پر ہونے والے مسلمانوں پر مظالم کو اقوام عالم پر ظاہر کرنے اور ان پر پاکستانی قوم کے من حیث القوم ردعمل کے اظہار کیلئے کئی قسم کے پلان کا فقدان ہے۔
پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا پر پاکستانی تہذیب و ثقافت کے بالکل برعکس ٹاک شوز‘ ڈراموں‘ مزاحیہ پروگراموں سمیت اس نوع کی دیگر نشریات میں جس طرز تمدن‘ بودو باش‘ لباس‘ طرز تخاطب‘ ادب و آداب کی روایات کی نمائش اور تشہیر ہو رہی ہے‘ ان کا پاکستانی ثقافت و نظریات سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اس امر کا اظہار بے جا نہیں ہوگا کہ اس سلسلے میں موجودہ ذمہ داران اقتدار نے بھی اپنے حقیقی فرائض کی بجاآوری کی طرف توجہ دینے سے گریز کیا ہے اور برابر کیا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ماضی کی بری بھلی حکومتوں کے برعکس میڈیا سے منسلک لوگ ہی ایوان اقتدار کے مکینوں کے اذہان پر قابض ہیں جبکہ ان میں بڑی تعداد ایسے بزرجمہروں سے عبارت ہے جو حصول پاکستان کے مقاصد سمیت قومی تاریخ و ثقافت‘ امہ کے نظریات‘ طرز تمدن اور عوامی امنگوں اور تمنائوں سے قطعی طورپر بے بہرہ ہیں۔
ایسے ’’شہ دماغوں‘‘ پر انحصار کرنے والا کوئی بھی ملک اور وہاں بسنے والی قوم اپنی بقاء دفاع کے مقاصد کے حصول میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوا کرتی۔ اس قسم کی بگڑی اور بگڑتی ہوئی قومی صورتوں کو سنوارنے میں ہمیشہ حکومتیں اپنا کردار ادا کیا کرتی ہیں اور موجودہ حکومت کو بھی وقت کی اس اہم ترین ضرورت کا احساس کرنا ہوگا۔ اگر ارباب اختیار قومی سوچ اور اپنی قومی تاریخ و ثقافت اور ملکی نظریات کے تقاضوں کو سمجھنے والے اہل علم و ادب اور اہل قلم کی قابل ذکر کھیپ سے لاعلم اور ان کے کوائف سے بے بہرہ ہیں تو پھر میڈیا کو من حیث المجموع کسی بھی ایسے منصوبے یا پلان کی تیاری اور ان سے مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ اس سے بڑی بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ بھارت میں رسوائے زمانہ ہٹلر کے پیروکار مودی کے پورے ہندوستان (بھارت) اور مقبوضہ کشمیر میں کئے گئے دہشت گردانہ اقدامات پر وہاں کے عوام بالخصوص مسلمان زندہ درگور ہوکر آگ کے شعلوں کی نذر ہو رہے ہیں اور پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کو راگ رنگ اور پاکستانی ثقافت ، اسلام کی سنہری روایات کے برعکس پروگرام سے دل بہلانے سے فرصت نہیں۔ یہ وقت ہے سوچنے سمجھنے اور ملک کے اہل علم و خرد سے مل کر ایسا منصوبہ مرتب کرنے کا جس کے نتیجے میں اقوام عالم کو ملکی میڈیا کے ذریعے یہ حقیقت آشکار ہو کہ بھارت کے عوام کو انسانیت مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔