مقناطیسی شعائیں

Jan 11, 2020

تصدق اے راجہ

میں پیروں فقیروں اور بابوں کا ماننے والا، اُن کے پاس حاضری دینا، ملنا اور کچھ سیکھنا اعزاز سمجھتا ہوں۔ سال ڈیڑھ سال قبل ایک نامور پیر صاحب کے بیٹے کی دعوتِ ولیمہ میں حاضر ہوا۔ اتفاق سے برابر والی نشست پر بھی گدی نشین بیٹھے ہوئے تھے۔ دورانِ گفتگو ان سے گذارش کی کہ 35/40 سال سے مزارات پر جانا، گدی نشینوں سے ملنا اور بابوں کی تلاش میرا معمول ہے، تشنگی ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہی۔ براہِ کرم رہنمائی فرمائیں، کہنے لگے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرا بھی مریدوں اور عقیدت مندوں کا وسیع حلقہ ہے۔ ہماری آمدنی کا زیادہ حصہ نذرانے اور تحائف ہوتے ہیں مگر شکر اللہ کا کہ میری اپنی زمینداری بھی ہے اور میں دربار اور لنگر کا خرچ وہیں سے چلاتا ہوں۔ جو سوال کیا اس کے جواب سے آپ شاید مطمئن نہ ہوں۔ انسان کے جب تک ماں باپ زندہ ہوتے ہیں اے کسی فقیر اور بابے کی ضرورت نہیں اور اگر وہ وفات پا جائیں تو ان کی قبر پر باقاعدگی سے حاضری دیں، تلاوت قرآن پاک اور ذکر کے بعد دعا کریں، اللہ کریم سب مسئلے حل کر دے گا اور اور اگر کچھ سیکھنا ہے تو با شرع پریکٹیکل بندے کے پاس جائیں۔ میں نے پیر صاحب کی بات کو پلے باندھتے ہوئے کسی با عمل کی تلاش شروع کر دی۔ اتفاق سے اسلام آباد کے سرکاری کوارٹر میں رہنے والے گریڈ سولہ کے ریٹائر ملازم سے ایک دوست کی دکان پر دو تین ملاقاتیں ہوئیںجو بڑی متاثر کن تھیں چنانچہ ایک دن میں نے ان کے ساتھ چند گھنٹے گذارنے کی درخواست کی جواباً کہنے لگے خواہ مخواہ بور ہو گے؟ بہرحال کل 11 بجے میرے گھر آ جانا جب ان کے پاس پہنچا تو وہ سفید چنوں کا سالن بنا رہے تھے۔ کھانا تیار ہوا تو انہوں نے سامان میری گاڑی میں رکھا، راستے سے ہم نے گرم نان بھی لیے اور ایک بستی کے باہر جا پہنچے، وہاں لوگوں کی مناسب تعداد اکٹھی ہو گئی۔ اتنا اعلیٰ کھانا شاید پہلے کبھی بھی نصیب نہیں ہوا۔ اِدھر اُدھر سے بے نیاز ایک چٹائی پر سادہ سے لوگوں کے ساتھ کھانے کا لطف ویسے بھی دوبالا ہو گیا۔ میں نے حاجی صاحب سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کہنے لگے کہ ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل آبپارہ بری امام سرکارؒ کے والد صاحب کے مزار سے نکلا تو ایک بزرگ مل گئے۔ وہ بڑے خوش اور مسرور تھے، میں نے ان سے پوچھا کہ خوشی اور کامیابی کیا ہوتی ہے؟ کہنے لگے اس کا جواب لینے کے لیے آج رات کا کھانا میرے پاس کھانا ہو گا۔ میں دئیے ہوئے وقت اور جگہ پر پہنچ گیا۔ کچھ اور لوگ بھی تھے، انہوں نے سوپ کا بڑا برتن سب کے سامنے رکھ دیا، مگر سوپ پینے کے لیے سب کو ایک ایک میٹر لمبا چمچ دے دیا۔ اور کہا کہ سوپ پئیں ۔ ہر شخص نے کوشش کی مگر ظاہر ہے ایسے سوپ پینا نا ممکن تھا۔ کوئی بھی شخص سوپ نہیں پی سکا، سب ناکام ہو گئے۔ بزرگ نے کہا کہ میری طرف دیکھو، انہوں نے چمچ پکڑا، سوپ ڈالا اور اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے منہ سے لگا دیا۔ اب ہر شخص نے اپنا اپنا چمچ پکڑا اور دوسرے کو سوپ پلانا شروع کر دیا۔ سب کے سب بہت خوش ہوئے، سوپ پینے کے بعد بزرگ کھڑے ہوئے اور بولے جو شخص زندگی کے دستر خوان پر اپنا ہی پیٹ بھرنے کا فیصلہ کرتا ہے، وہ بھوکا ہی رہے گا اور جو شخص دوسروں کو کھلانے کی فکر کرے گا، وہ خود کبھی بھوکا نہیں رہے گا، دینے والا ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے، آئیں تہیہ کریں کہ آج کے بعد دینے والے بنیں گے کہ ہم سب کی کامیابی کا راستہ دوسروں کی کامیابی سے ہو کر گزرتا ہے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن سردی ہو یا گرمی، آندھی ہو یا طوفان، عید ہو یا شب برآت میں دس، بیس ، تیس بندوں کا کھانا کہیں نہ کہیں پہنچانا فرض سمجھتا ہوں اور وسائل خود رب تعالیٰ بناتے ہیں مجھے آج تک کسی چیز کی کئی کمی نہیں ہوئی۔ سہ پہر ہو چکی تھی۔ ہم نے ایک جگہ چائے پی اور پھر حاجی صاحب کے حکم کے مطابق ایک اور بستی کی طرف چل پڑے۔ ادھر ایک چھوٹی سی مسجد میں پہلے نماز ادا کی اور پھر مسجد کے سائے میں بیمار کتا لیٹا ہوا تھا۔ خارش میں مبتلا تھا۔ مرض کی وجہ سے اس کے بال جھڑ چکے تھے اور جسم پر سفید داغ تھے اور ان میں سے بعض داغوں سے خون رس رہا تھا۔ حاجی صاحب نے اٹھائے تھیلے سے خوراک کا پیکٹ نکالا، کھول کر کتے کے سامنے رکھ دیا، مجھے مسجد سے پانی لانے کا کہا۔ جو کتے کے سامنے پڑے برتن میں ڈالا، کتے کے جسم پر مرہم لگائی، ہاتھ دھوئے اور ہم وہاں سے واپس ہوئے۔ راستہ میں پوچھا کہ اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔ حاجی صاحب کہنے لگے آج میرا اِدھر آتے آٹھواں دن ہے، یہ کتا دس ولیوں کے برابر ہے۔ میری حیرانگی دیکھ کر کہنے لگے کہ یہ التجا کے اس درجے پر فائز ہے کہ جہاں خالق اور مخلوق کے درمیان ڈائریکٹ ڈائیلنگ شروع ہو جاتی ہے۔ مخلوق جو کہنا چاہتی ہے خالق اس کے بولے بغیر سن لیتا ہے۔ حاجی صاحب کہنے لگے کہ آج کل پھر ادھر آنا ہو تو اس کتے کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھنا، تمہیں اس سے مقناطیسی شعائیں نکلتی دکھائی دیں گی۔ یہ التجا کی دعائیں میں جو عرش کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں! پوچھاحاجی صاحب آپ اس کی خدمت کیوں کر رہے ہیں؟ کہنے لگے، بیماری اور لاچاری میں اس کا اللہ تعالیٰ سے براہ راست رابطہ ہے میں خدمت کے ذریعے اس مقناطیسی راستے میں اپنی عرض ڈال دیتا ہوں اور یوں میری التجا بھی اس تک پہنچ جاتی ہے۔ حاجی صاحب بڑے ہجوم میں ضرورت مند بھی تلاش کر لیتے، اچانک کسی کے پاس رک جاتے، اس کا مسئلہ پوچھتے اور اس کے حل کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے، میں پوچھتا کہ حاجی صاحب آپ کوکیسے علم ہو جاتا ہے کہ فلاں انسان کسی مسئلے کا شکار ہے اور اسے آپ کی مدد چاہئیے۔ وہ ہنس کر جواب دیتے کہ التجا انسان کے چہرے پر تحریر ہوتی ہے، مانگنے والا اپنی طلب خواہ ہزاروں مسکراہٹوں میں بھی چھپا لے لیکن یہ ننگے کے ننگ کی طرح سامنے آ جاتی ہے۔ بس دیکھنے والی آنکھ چاہئیے۔ اور یہ رب کے کرم کے بغیر نہیں ملتی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے ملی؟ کہنے لگے کہ ریٹائرمنٹ سے چھ ماہ قبل حج پر گیا۔ میدانِ عرفات میں ایک سرائیکی بابا دعا کر رہا تھا۔ میں خاموش مگر یوں سمجھیں جیسے یہی دعا میرے انگ انگ سے نکل رہی تھی، ’’یا اللہ ان آنسوئوں کے زیرو بم تیرا کرم، میرے دل کی دھڑکن تیری بخشش، میرے خون کی گردش تیری سخاوت، میرے ذہن کا کلام تیرا لطف ، میرے قدموں کی جنبشیں تیرا احسان , کوئی ان کو بنانے میں تیرا ساجھی، تیرا معاون اور شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں اس عجز کے ساتھ کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ تیری ملکیت ہے، یہ زمین تیری، آسمان تیرا، سورج چاند ستارے تیرے، پہاڑ تیرے، میدان تیرے، دریا و سمندر تیرے ہیں، یہ میرا گھر، یہ میرا مال، میری دولت، میرا جسم، میرے اہل و عیال میرے نہیں تیرے ہیں، کوئی ان کو بنانے اور عطا کرنے میں تیرا شریک نہیں۔ پس تیرا اختیار ہے تو جس طرح چاہے اپنی ملکیت پر تصرف کرے۔ میں حاضر ہوں اپنے تمام گناہوں کے بار کے ساتھ کہ تو انہیں بخش دے۔ اپنی تمام خطائوں کے ساتھ کہ تو انہیں معاف کر دے، اپنے تمام بدنما داغوں کے ساتھ کہ تو انہیںدھو دے، انہی تمام ظاہری اور باطنی بیماریوں کے ساتھ کہ تو ان کا علاج کر دے، اپنے من کے کھوٹ کے ساتھ کہ اسے دور کر دے۔ اپنی نگاہوں کی گستاخیوں کے ساتھ کہ تو ان سے چشم پوشی کرے، اپنے کانوں کی گناہ گار سماعت کے ساتھ کہ تو اس کا اثر ختم کر دے۔ اپنے ہاتھوں کی ناجائز جنبشوں کے ساتھ کہ تو ان سے درگزر کر لے، اپنے قدموں کی گناہ کار چال کے ساتھ کہ تو انہیں اپنی راہ پر ڈال دے اور بدکلامی کرنے والی زبان کے ساتھ کہ تو اس کی باتوں کے لیے خاص کر دے، میں حاضر ہوں اور پناہ مانگتا ہوں تیری رضامندی، تیرے غصے اور تیری مغفرت کی۔ تیرے عذاب سے میں تیری ہی پناہ چاہتا ہوں۔ میں تیری تعریف کر ہی نہیں سکتا پس تو ایسا ہے ۔ جس طرح تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔ میں حاضر ہوں شیطان سے لڑنے کے لیے، نفس کے ناجائز تقاضوں سے نبٹنے کے لیے، خود کو تیرے سپرد کرنے کے لیے اور اپنا وجود قربان کرنے کے لیے آج کا دن میری زندگی سے بہترین دنوں میں سے ایک تھا۔ رب تعالیٰ مجھے بھی بااثر اور باعمل بننے اور مخلوق کی خدمت کی توفیق عطا فرمائیں، آمین ثم آمین۔

مزیدخبریں