عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی

جان کر نہ جاننے اور معلوم ہو کر بھی نہ معلوم ہونے کا اعتراف سفر کو سہل کر دیتا ہے۔ منزل قریب سے قریب تر ہونے لگتی ہے لیکن تصوف کے راہی بہرصورت راہ کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ انھیں سفر کی گرد مخمور کئے رکھتی ہے۔ وہ اسی کے سحر میں جیتے ہیں۔ غبارِ راہ ان کے لئے کسی منزل سے کم نہیں ہوتا اور حقیقت بھی یہ ہے کہ سفر کی لذّت منزل پہ ہرگز میسر نہیں آیا کرتی۔ دورانِ سفر منزل کی کیفیات سے حظ اٹھایا جاتا اور اس مستی سے محظوظ ہوا جاتا ہے۔ آدمی جب خود کو کسی کے سپرد کر دیتا ہے تو سفر کی ساری منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ راہِ سلوک کے اپنے ہی قرینے ہیں۔ حواسِ خمسہ کی مثل ہم دوستانِ خمسہ نے بھی امام بری شاہ لطیفؒ کی نسبت کے تحت چند مقاماتِ انوار کی زیارت کے لئے رختِ سفر باندھا۔ ہمیں ضلع چکوال کے مضافات ’سید کسراں‘ میں قدم دھرنے کا شرف حاصل ہوا جہاں صدیوں قبل مشہد سے کچھ فرزندانِ علی نے اس خطہ کو اپنا جائے مسکن بنایا تھا۔ ہمارے سامنے سے تاریخ کا جھروکا کَوند کی مانند گزر گیا کہ جب قدیم وقتوں میں سادات کے گھرانے وہاں آباد ہوئے ہوں گے اور وادی کس قدر معطر ہو گئی ہو گی۔ ان حضرات میں حضرت امام بریؒ کے اجداد بھی شامل تھے جنھوں نے بعدازاں چکوال ہی کے مضافات میں سے ایک دوسرے نگر ’کرسال‘ کا رخ کیا اور اس جا کو شرفِ نسبت عطا کیا۔ سید کسراں میں چند مزارات اور شاہ چن چراغؒ کی نشست گاہ پہ حاضری دے کر ہم اس قدیم صحن کو بھی گئے جو اس نسبت سے معروف ہے کہ وہ پہلے پہل آنے والے بزرگوں کی جائے اکٹھ تھی۔ یہ نسبتیں بھی کسی سحر سے کم نہیں ہوتیں کہ مسافرانِ باطن نسبتوں کا پاس رکھتے، ان کی جانب کھنچے چلے جاتے ہیں۔ یہاں حاضری کے بعد ہم نے چولی کرسال کا رخ کیا جہاں مرشدی امام بریؒ کی جائے پیدائش، نشست گاہ (بیٹھک) اور آپؒ کے جد امجد حضور سخی باوا شاہ حسینؒ کا مزار اقدس ہے۔ اسی نگر سے حضرت امام بریؒ کے والدِ ماجد سخی محمود بادشاہؒ اپنے عیال کے ہمراہ تب کے ’باغ کلاں‘(حالیہ آبپارہ) تشریف لے آئے جہاں برسوں بعد شہرِ اسلام آباد نمودار ہوا اور امام بریؒ منازلِ سلوک طے کرتے ہوئے تب کے موضع کہاوت کے ہو کر رہ گئے جو آج نور پور شاہاں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ امام بریؒ کی نظر کا اعجاز تھا کہ برسوں کے بھٹکے بھی بری بری کرنے لگے، انھیں حق کا ادراک ہونے لگا۔ میرے جدِ امجد سائیں اشرف قادری قلندریؒ کے مرشد، کامرہ شریف کے ٹکا بادشاہ قادریؒ نے کہا تھا:
؎مسجدکول پرانی تانگے قدم مبارک پائے
موہن ہوئی بستی ساری سب اسلام لائے
 کرسال کی گلیوں سے بھی گویا بریؒ بریؒ کی صدا برآمد ہو رہی تھی جو دِلوںکو مسحور کئے جا رہی تھی۔ آپؒ کی جائے پیدائش اور نشست گاہ پہ حاضری ہمیں کم و بیش تین سو برس قبل اس منظر میں لے گئی جہاں امام بریؒ نے اس خاکِ بابرکت پہ قدم رکھے ہوں گے اور شیشم کے اس درخت تلے بچپن کی ساعتیں بیتائی ہوں گی۔ درحقیقت ایسی جگہیں اور مقامات روح کو خوراک میسر کرتے ہیں۔ متلاشیانِ حق تسکین کے اس سمندر میں غوطہ زن ہو جاتے ہیں۔ یہ دائمی تسکین حیات و ممات کا لازمی جزو ٹھہرتی ہے۔ یہ راحتِ جاں سمیٹتے ہم امام بریؒ کے جد امجد حضور سخی شاہ حسینؒ کے مزار اقدس پہ دست بدستہ حاضر ہوئے تو گویا کیفیات کے سمندر نے آ لیا۔ ذکرِ منبع ولایت علیؑ و حسنین کریمینؑ ہوا، آپ اور آپؐ کی آل پہ درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ نہ جانے کب کے نمود پاتے آنسو، صاحب مزار کے سامنے ٹپکنا شروع ہوئے اور اس ٹپ ٹپ نے بریؒ بریؒ کی بازگشت کا رُوپ دھار لیا۔ اپنے حصے کی فیوض و برکات سمیٹ کر ہم امام بریؒ کی ایک اور نشست گاہ کی طرف روانہ ہوئے جو مارگلہ کی پہاڑیوں سے پرے نیلاں بھوتو کی ’للاں ندی‘ میں واقع ہے، جو آج کے ضلع ہری پور کا حصہ ہے۔ کچھ فاصلہ باقی تھا کہ سواری سے اترے اور برہنہ پا ’بیٹھک‘ کو چل دئیے۔ یہ آبلہ پائی اور لذّتِ آشنائی بھی واقعتا عجب شے ہے جو اس راہ کے راہی کو دوعالم سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ سید فیضی جالندھری کے قلم نے جنبش لی تو گویا یہ مصرعے امر ہو گئے:
؎شوقِ عبادت ایسا کہ دریا کو بھی ہے ناز
پانی کی تہ میں بیٹھ کے سجدے کیے ادا
حق یہ ہے کہ اللہ والے جہاں قدم رکھ دیں، وہ جگہیں، وہ نشست گاہیں، وہ بیٹھکیں امر ہو جاتی ہیں۔ وہ مقامات برسوں سے محفوظ چلے آتے ہیں۔ لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہ اللہ والوں کی نشانیاں ہیں اور مالکِ ارض و سما اپنے محبوبائوں کی نشانیوں کواپنی نشانیاں قرار دیتا اور انھیں دوام عطا کرتا ہے۔ صفا و مروہ محبوبائوں کی ادائیں ہیں، اور محبوب کی ادائوں کو گھڑی گھڑی دیکھا جاتا، اور ان ادائوں کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ ان نشانیوں کی لذّت بے مثل اور جدا ہے، جسے یہ نصیب ہو جائے، دنیا کی رعنائی اور کشش اس کی ایک ٹھوکر پہ ہوتی ہے اور دنیا کا بانکپن اور اس کی تمام تر لذّات زاہل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ روحانی بالیدگی کے اس سفر میں مسافرانِ باطن اپنے اپنے بریؒ کی لذّت سے آشنا جبکہ نفس کی لذّت سے بیگانہ ہوتے چلے جاتے ہیں، یہی حقیقی ظفریابی ہے۔ لذّتِ آشنائی کی آرزو بھی بڑی آرزو ہے۔ ایسی ہی کیفیات سے مزین کسی آن جناب ِ اقبالؒ نے کہا تھا: ؎دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...