بیروزگاری ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ نوجوان جن میں ذہانت، قوّت اورصلاحیتیںموجود ہیں مگروہ نوکری اور روزگارسے محروم ہیں۔ بلاشبہ تعلیم انسان کو شعور اور معاشرتی آداب سکھا کر معاشرے میں رہنے کے قابل بناتی ہے جسے حاصل کرنے سے انسان ایک قابل قدر شہری بن جاتا ہے جبکہ فنی تربیت انسان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اسے باعزت روزگار کمانے کے قابل بناتی ہیں تاکہ وہ معاشی طور پر خوشحال زندگی بسر کرسکے۔پبلک سیکٹر صرف چند ہزارآسامیاں تخلیق کرسکتا ہے۔ملکی معیشت اتنی توانا نہیں اور نہ ہی اس میں اتنی وسعت ہے کہ کروڑوں بے روزگار نوجوانوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لے اور سب کو روزگار فراہم کر دے۔ بیروز گاری کے مسئلے پر کتنے ہی اجلاس اور سیمینار منعقد کر لئے جائیں اور کتنی ہی تقریریں کر لی جائیں کوئی دوسرا طریقہ نہیں ڈھونڈا جاسکتا۔اس پر قابو پانے کا ایک ہی حل ہے کہ نوجوانوں کو فنّی تعلیم و تربیّت فراہم کرکے انھیں ہنر مند بنادیا جائے۔فنی تعلیم یافتہ ہنرمند ایک تو کبھی بے روزگار نہیں رہ سکتا اوردوسرا یہ کہ ہنر مندی کی تعلیم سفارت کاری کی دنیا میں ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ انسان کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی آنا چاہئے تاکہ کسی بھی مشکل وقت میں وہ رزق کما سکے۔ موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اس دور کی سب سے بڑی ضرورت فنی مہارت اور صنعتی پیشہ ورانہ تعلیم ہے ۔ ہروہ ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے جس نے فنی مہارت حاصل کی ہے۔ کسی ملک میں فنی ماہرین کی تعداد جس قدر زیادہ ہو وہ اتنی ہی تیزی سے ترقی کرتا ہے۔ پاکستان میں فنی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ دوسرے ممالک کی نسبت یہاں فنی تعلیم کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے۔چینی زبان میں ایک مثال ہے کہ’’ آدمی کو مچھلی نہ دو بلکہ اسے مچھلی پکڑنا سکھاؤ‘‘۔ اس سے وہ خودکفیل ہوگا۔ٹیکنیکل سکل یعنی ہنر ہی وہ کنجی ہے جو کسی بھی فرد کے لیے امکانات کے لاتعداد دروازے کھول دیتی ہے۔فطری طریقے پر اپنی پوشیدہ صلاحیّتوں کی پرورش کے لئے ضروری ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے اندر پرورش اور ترقی کی ضرورت کو محسوس کرے ۔ یورپی ممالک نے برسوں پہلے یہ حل ڈھونڈ لیا تھا اس لیے وہ معاشی تر قّی کی دوڑ میں آگے نکل گئے۔ ہم نے اسے نظر انداز کئے رکھا اس لیے بہت پیچھے رہ گئے۔کئی دہائیوں تک یہ اہم ترین شعبہ حکومتوں اور حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل رہا اور غلط ترجیحات کے باعث ملک بیروزگاری اور غربت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔حضرت عمررضی اللہ عنہ فرمان ہے کہ ’’میں کڑیل جوان کو دیکھتا ہوں تو مجھے اچھا لگتا ہے اور جب مجھے کہا جائے کہ اس کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے تو وہ میری نظروں سے گر جاتا ہے ‘‘۔نیزحضرت محمد ﷺنے لکڑیاں جمع کر کے بیچنے کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر قرار دیا۔ہمارے ہاں ہر سال لاکھوں نوجوان بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں لے کر مختلف سرکاری وغیر سرکاری اداروں کے چکر کاٹنا شروع کردیتے ہیں مگر ہر طرف سے انھیں مایوس کن جواب ملتا ہے۔اتنے بڑی افرادی قوّت کو اگر ہم قابلِ تجارت ہنر فراہم کرسکیں تو یہ ہمارے پاس سونے اور تیل سے کہیں بڑا سرمایہ ہے۔اوراگرانہیں وہ ہنر فراہم نہ کرسکے جو انہیں روزگار کمانے کے قابل بنادے تو بیکاری اور فرسٹریشن انہیں جرائم یا دہشت گردی کی طرف دھکیل دے گی۔ہمارے ہا ں ٹیکنیکل اور ووکیشنل شعبے کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں رہی۔ صنعت کا ہر سیکٹر غیر ہنرمند لیبر فورس کا رونا رو رہا ہے۔ پیداواری صلاحیّت بڑھانے کے لیے ہر فیلڈ میں ہنرمندی اور مہارت کی ضرورت ہے یعنی زراعت،تعمیرات،سولر انرجی، صحت، آئی ٹی سے لے کر بیوٹیشن اور کْکنگ وغیرہ تک۔ بلاشبہ مقابلے کے اس دور میں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے توفنّی تعلیم و تربیّت کے بغیرممکن ہی نہیں۔پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیا ء الحق جاپان کے سرکاری دورے پر گئے انکی حیرت انگیز ترقی سے متاثر ہو کر انہوں نے جاپانیوں سے اس ترقی کا راز دریافت کیا جاپان کے ترجمان نے بتایا کہ پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کے دوران کسی وقت چند جاپانی چین اور جاپان کے درمیان ساڑھے پانچ سو کلو میٹر سمندری سفر کر کے چین پہنچے۔ چین کے فنی ماہراستادوں سے ہنر کی نزاکتیں، باریکیاں اور نفاست سیکھی جدید ٹیکنالوجی مغرب سے حاصل کی۔دونوں کے امتزاج سے ہنر مندی کی انتہائی بلندیوں تک پہنچے۔