اچھے عمل کی ضرورت

اس سال سردیوں نے پچاس سالہ ریکارڈ توڑ ڈالا۔ شدید سردی نے جہاں پر زندگی کے پہیہ کو کچھ دیر کے لیے سست کردیا تو وہاں پر تمام شعبہ زندگی بھی اس کی لپیٹ میں رہے۔ 15 دسمبر سے شروع ہونے والی سردی نے ابھی تک اپنا جو بن برقراررکھا ہوا ہے۔ شاید فروری تک یہ اپنے شباب پر رہے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربانی ہے کہ جو ہمارے شدید ترین گناہوں کے باوجود بھی ہمیں دنیا کی ہر نعمت دے رہا ہے۔ لیکن انسان جس کی سرشت میں ناشکری ہے یہ اپنے پیارے رب کی کب مانتا ہے۔ انسان بھی عجب چیز ہے، مانتا اپنے نفس کی ہے اورامید یہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مانے گا۔ یہ غلط سوچ ہے۔ جب تک انسان اپنے رب کی نہیں مانے گا تو اس وقت تک اللہ تعالیٰ کسی طرح سے راضی نہیں ہوسکتا۔ ہم سودی لین دین بھی کرتے ہیں، شراب کو پانی سمجھ کر پیتے ہیں، جبکہ زنا کو تو سمجھتے ہی نہیں۔ ویسے ہماری اعلیٰ سوسائٹی کے لوگ تو گناہ کو گناہ سمجھتے ہی نہیں۔ اب گزشتہ ایک ماہ سے ایک حریم شاہ اور صندل خٹک نے بڑے بڑوں کو تگنی کا ناچ نچایا ہوا ہے لیکن کیا ہوا برسر اقتدار لوگ جو اپنے آپ کو نہ جانے کیا بلا سمجھتے ہیں ان پر تو کچھ اثر ہی نہیں ہورہا۔ حالانکہ سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے نے ان لوگوں کو مکمل طور پر ننگا کرکے رکھ دیالیکن کیا ہوا نہ تو شیخ رشید ان باتوں سے متاثر ہورہے ہیں اور نہ ہی دیگر حکومتی لوگ۔ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اقتدار کی طاقت اندھا اور بہرہ کردیتی ہے اور پھر ان کے دلوں سے گناہ کا احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ اپنے ان کاموں کو صرف تفریح اور ذاتی لذات کا نام دے کر اپنے ضمیر کو خاموش کرادیتے ہیں اور دوسرا یہ لوگ ابلیس کے بہکاوے میں آچکے ہیں۔ اس کے دھوکے کا شکار ہوچکے ہیں اور یہ اس میں دن رات غرق ہوتے جارہے ہیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ جب ایک انسان گناہ کرتا ہے اور مسلسل کرتے جاتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ داغ پڑ جاتا ہے۔ اس کا دل مکمل طور پر زنگ آلودہ ہو جاتا ہے۔ اگر اس نے اس دوران اللہ تعالیٰ کے سامنے سچے دل سے توبہ کرلی تو اس کے دل سے سیاہی ختم ہو جاتی ہے وگرنہ بڑھتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اسے گناہ کا احساس تک ہی نہیں ہوتا۔ آج حدیث پاک کی سچائی اور حقیقت سامنے آرہی ہے کہ ہم اپنے گناہوں میں ایسے غرق ہوچکے ہیں کہ ہمیں توبہ کرنے کی بھی توفیق نہیں ہورہی۔ اس طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ ایک بندہ صبح کو مسلمان ہوگا اور شام کو کافر ہو جائے گا اس طرح شام کو اگر مسلمان ہوگا تو صبح کافر ہو جائے گا۔ فرمایا کہ اس شخص سے ایسا فعل اورعمل سرزد ہوگا کہ اس کا ایمان ختم ہو جائے گا اور اسے پتہ ہی نہیں چلے گا۔ آج یہی کیفیت ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور ہمیں احساس تک نہیں ہورہا۔ وہ کونسا گھرانہ ایسا بچا ہے کہ جہاں رات 12 بجے تک موبائل پر ٹک ٹاک اور بجری گیم نہیں کھیلی جاتی۔ موبائل فون نے ہمارے معاشرے میں جس تیزی کے ساتھ اخلاقی تباہی برپا کی ہے شاید کوئی دوسری چیز اثر کرسکتی ہے۔ لیکن ادھر سب خاموش ہیں نہ جانے کتنے بڑے اعلیٰ حکومتی لوگوں کے اپنے بار گھر ہیں جہاں پر یہ لوگ اپنے دوستوں کو دعوت شیراز دے کر خاص طور پر مدعو کرتے ہیں اور شراب سے دل بہلاتے ہیں۔ شراب پینے والے لوگوں پر تین کیفیات رونما ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ شیر کی طرح دلیر ہوتے ہیں، دوسری کیفیت میں یہ لومڑی کی طرح مکار اور بزدل بن جاتے ہیں اسی طرح تیسری کیفیت میں بے غیرت بن جاتے ہیں جس کو نشے میں اپنی ماں، بیٹی اور بہن کی پہچان بھی نہیں رہتی ۔ اس لیے تو
اللہ تعالیٰ نے شراب کو اُم الخبائث کا نام دیا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج ہمارے ملک میں یہ لعنت سب سے زیادہ پھیل چکی ہے لیکن ہمیں احساس تک نہیں ہورہا کہ ہم اپنے لیے کتنی بڑی تباہی پیدا کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں سردی کی شدت نے پچاس سال کے جو ریکارڈ توڑ دئیے تھے تو یہ بھی ہمارے گناہوں کی شامت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں راہ راست پر لانے کے لیے چھوٹے چھوٹے عذاب نازل کرتا رہتا ہے۔ دو ماہ قبل آزاد کشمیر ، میر پور خاص میں جو اچانک زلزلہ آیا اور زمین پھٹ گئی اس چھوٹے سے جھٹکے سے ہم نے کیا سبق حاصل کیا۔ کچھ بھی نہیں، بلکہ پہلے سے زیادہ ذلیل ہوگئے۔ اب ایک اور طبقہ کی ذرا خبر لیں کہ جو ہر سال بڑے دھڑلے کے ساتھ ناجائز منافع کماتے ہیں۔ عوام کو اپنی مرضی سے لوٹتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور پھر رمضان المبارک میں دل کھول کر لوٹ مار کرنے کے بعد عمرہ پر جاتے ہیں۔ دین 70 فیصد معاملات میں چھپا ہے۔ تمام عبادات انسان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذاتی معاملہ ہے لیکن لین دین، قول و فعل یہ سب باتیں حقوق العباد میں آتی ہیں جس کو ہم نے ترک کیا ہوا ہے۔ غصہ، حسد، کینہ، جھوٹ یہ سب بیماریاںہمیں دوسرے کے ساتھ کرنا ہوتی ہیں۔ اگر ان بیماریوں سے نجات پا لی تو آپ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے بن گئے۔ دنیا میں اب تک جتنے بھی اولیاء اللہ اور اعلیٰ لوگ آئے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو غصہ ، حسد، کینہ، غیبت اور جھوٹ سے بچائے رکھااور نجات پاگئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان بیماریوں سے بچائے۔ ہم لوگ بھی عجب ہیں کہ اپنی جسمانی بیماریوں کے لیے علاج پرہر ممکن وسائل خرچ کرتے ہیں لیکن اصل روحانی بیماریوں کا علاج نہیں کرتے۔ جب ہم اپنی روحانی بیماریوں کا علاج کرنا شروع کردیں گے تو میں یقین کامل سے عرض کرتا ہوں کہ ہم عارضی جسمانی بیماریوں سے بھی نجات پا لییں گے۔ لیکن اس کے لیے سخت عمل کی ضرورت ہے اور جو بھی یہ عمل کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ مجھ سمیت ہم سب کو اچھے عمل کرنے کی ہمت عطافرمائے۔ (آمین)

ای پیپر دی نیشن