جرائم کی شرح میں اضافہ۔عوام میں عدم تحفظ کی فضا

Jan 11, 2020

جام احمد علی

قانون کسی بھی معاشرے کے اجتماعی شعور کا عکاس ہوتا ہے یہ ریاست کی اتھارٹی معاشرے کی اقدار اور قانون کی عملداری سے ریاست کی رٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ڈویژن ڈیرہ غازی خان کا سب ڈویژن صدر مقام جام پور جیسے پنجاب بھر میں سیاسی سماجی ثقافتی تجارتی اور ریونیو کے اعتبار سے نمایاں حیثیت حاصل ہے ماہ دسمبر کا پہلا عشرہ بہت بھاری ثابت ہوا شہر کے مختلف بارونق علاقوں میں چوری ڈکیتی راہزنی کی دلیرانہ وارداتوں کے باعث عوام عدم تحفظ کا شکار ہو گئے۔معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنا پولیس کے بنیادی فرائض میں شامل ہے لیکن یہاں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پولیس افسران اپنی ذمہ داری سے غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں یہی لاپرواہی جرائم میں اضافے کا سبب ہے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اجکل پولیسنگ نظام تو چوکی کی صورت میں گلی محلوں اور دیہات تک رسائی حاصل کر چکا ہے لیکن جرائم کی شرح میں ہوشربا اضافہ سمجھ سے بالاتر ہے پولیس نظام میں مؤثر بہتری کی نوید کئی بار سنائی دی گئی مگر ڈھاک کے تین پات پولیس کی تمام تر خرابیوں کے ساتھ پرنالہ اپنی جگہ موجود ہے اور کارکردگی روزبروز گھمبیر صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے آئے روز پوش اور گنجان آباد محلوں اہم تجارتی مراکز میں ڈاکہ زنی دن دیہاڑے گن پوائنٹ پر لوٹ مار وہیکل تھفٹ کی دلیرانہ وارداتوں نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے مقامی پولیس بے بس ولاچارگی کے عالم میں چند ایک پولیس ملازمین اورعدم وسائل کا روناروکر عوام کو صبر کرنے کی تلقین کردیتی ہے جام پور کی آبادی دولاکھ نفوسِ پر مشتمل ہے لیکن ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے سٹی تھانہ میں چند پولیس ملازمین وتفشیی افسران اور ایک ایس ایچ او پورے شہر کو کس حد تک کنٹرول کرسکتے ہیں افسران اور سیاسی گودوں کے پروٹوکول ڈیوٹی الگ وبال جان بنی ہوئی ہے ممکنہ دہشت گردی کے پیش نظر نماز کے اوقات میں پولیس اہلکار الگ سے ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں ایک دو ٹوٹی پھوٹی گاڑیوں اور زنگ آلود اسلحہ کے ہمراہ شہر کا گشت بھی پوری طرح ممکن نہیں ۔یہاں ماہ دسمبر میںیکے بعد دیگرے ہونی والی ڈکیتی چوری کی وارداتوں نے شہریوں کو ہلاکر رکھ دیا لیکن تاحال کسی ایک واردات کا ٹریس آؤٹ نہ ہونامقامی پولیس کی عمدہ کارکردگی پر سوالیہ نشان ضرور ہے اکثر وارداتوں میں ملزمان کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہیں اس کے باوجود ان کی گرفتاری کا نہ ہونا معنی خیز ہے تاحال لوٹ مار ڈکیتی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے پورے شہر میں چوروں لٹیروں کا بسیرا ہے ہر طرف خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں اوباش کھیلنڈرے نوجوان اسلحہ تانے دن بھر بازاروں گلیوں میں گھوم رہے ہیں جو موقع ملتے ہی واردات کر ڈالتے ہیں اس قسم کی سینکڑوں وارداتیں ریکارڈ پر نہیں ہیں شہر کے اکثر علاقوں میں پرجی جواء زی ٹی وی منشیات کھلے عام فروخت ہورہی ہے بلکہ متعدد علاقے پولیس کے لئے نوگوایریا کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو ایک کھلا چیلنج ہے پولیس روایتی طور پر منشیات کے ڈیلروں کی بجائے نشہ کے عادی افراد کو گرفتار کر کے جان چھڑا لیتی ہے گزشتہ دنوں اشک شوئی کے لیے پولیس نے نصف درجن کے قریب موٹر سائیکل برآمدگی کا دعویٰ کر کے مالکان کے حوالے کیے کی الگ داستان ہے بیشتر موٹر سائیکل مالکان کو پولیس کی طرف سے کاروائی نہ کرنے اور نقدی رقم دے کر ملزم سے زبردستی صلح کرانے کی روایت بھی یہاں عام پائی جاتی ہے واقفان حال کے مطابق بعض حلقوں میں یہ بات گردش کررہی ہے کہ پولیس میں چند کالی بھیڑیں یہ کام انجام دے رہی ہیں ان کی پشت پر بعض سیاسی گودوں کا ہاتھ ہے جن کے آگے شریف اور فرض شناس آفیسر بے بس ہیں ایس ایچ او سٹی مہار سعید احمد رونگھ ایک منجھے ہوئے پولیس آفیسر اور پرانے کھلاڑی ہیں اور ان کے ہمراہ ایک قابل فرض شناس دبنگ تفتیشی ٹیم ہے اس کے باوجود وارداتوں کا ٹریس نہ ہونا ان کی نیک نامی متاثر کررہی ہے جبکہ ذرائع کے مطابق ایس ایچ او نے اپنی الگ دنیا بسا رکھی ہے ماہر تفتیشی ٹیم سے باہمی مشاورت تعاون نہ ہونے سے جرائم میں اضافہ ہوا ہے ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایس ایچ او اپنی ٹیم پر بھروسہ کرنے کی بجائے سنگین مقدمات میں چالان ہونے والے ڈاکوؤں کو بطور انفارمر استعمال کررہے ہیں جو انہیں مس رپورٹ کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کررہے ہیں۔
گزشتہ دنوں یار لوگوں نے سنوکر کلبوں کو ٹارگٹ کیا شہر بھر میں کوئی 300سے زائد سنوکر کلبز ہیں میں صرف دوسنوکر کلب کے خلاف دبنگ کاروائی کرڈالی جو سوشل میڈیا پر جگ ہنسائی کا باعث بنی معلومات کے مطابق جمعرات کے روز پنجاب بھر میں بارشوں کا سلسلہ تھا اکثر سکولوں کے طالب علم چھٹی پر تھے کاروبار زندگی معطل ہونے کی وجہ سے دوپہر کے وقت وہ سنوکر پر آگئے پولیس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دھاوا بول دیا مین گیٹ بند کر کے مالکان اور کھلاڑیوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں انہیں قمار بازی ایکٹ کے تحت ملزم بناکر عدالت پیش کردیا اس دوران ان کی جیبوں سے برآمد ہونے والے چند ہزار روپے کو داؤ پر لگی رقم ڈکلیئر کرتے ہوئے پولیس نے اپنی جیب سے رقم شامل کرکے 15000ہزار روپے کی برآمدگی دکھائی سٹی پولیس کی یہ دبنگ کاروائی شہر بھر کے لیے ایک مذاق بن گئی عینی شاہدین کے مطابق پولیس کا بے رحمانہ اور سفاکانہ پر تشدد رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا پولیس کے اس ظالمانہ رویے پر شہریوں نے سوشل میڈیا پر خوب لتے لئے ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں جیسا کہ اوگرا نے ماہ دسمبر میں 25پیسے فی لیٹر پیٹرول کی قیمت کم کر کے خوب داد حاصل کی جام پور پولیس نے بھی سنوکر کے کھلاڑیوں کے خلاف کارروائی کر کے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس سے سیاسی مداخلت کا سلسلہ بند کر کے ملازمین کی تعداد میں اضافہ اور دیگر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بناکر فرض شناس دیانتدار نوجوان اور پڑھے لکھے پولیس آفیسر کی تعیناتی عمل میں لائی جائے۔

تاکہ شہری لمبی سرد راتوں کو جاگ کر نہیں بلکہ سوکر گزار سکیں۔چوریوں ، ڈکیٹیوں اور مسلسل راہزنی کی وارداتوں کے پیش ِ نظر آر پی او ڈیرہ غازیخان عمران العمر، ڈی پی او راجن پور احسن سیف اللہ نے جام پور میں مصرف دن گزارا حالات کا جائزہ لیا ، مقامی پولیس کی ناکامیوں پر خوب لتے لیے لیکن اس کے باوجود جام پور شہر سے چوریوں کا سلسلہ نہ تھم سکا ۔
کرائم کی ابتر صورتحال جام پور تک محدود نہیں ہے بلکہ ضلع راجن پور کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ڈاکو راج قائم ہے اور دن دیہاڑے چور دوکانوں کے آگے کھڑی موٹر سائیکلیں چرا کر رفو چکر ہو جا تے ہیں اسی طرح سر شام ہی ڈکیٹی کی وارداتوں میں بھی کمی نہیں چھت پھاڑ چور بھی اپنی مہارت سے سر گرم ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کا اپنا شہر بھی ان وارداتوں سے محفوظ نہیں ہے حال ہی میں ڈی پی او راجن پور احسن سیف اللہ تعینات ہوئے ہیں کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ ایک فرض شناس پولیس آفیسر ہیں نے لاہو رمیں تعیناتی کے دوران جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف نمایاں کام کیا ہے لیکن راجن پور میں وہ یکسر ناکام نظر آتے ہیں اور ابھی تک ہو نے والی سنگین وارداتوں کا نوٹس لینا تو کجا تفتیشی افسران سے باز پرس تک نہیں کی گئی کیونکہ ان کے نزدیک ضلع بھر میں ہونے والی چوری اور ڈکیٹی کی وارداتیں لاہور کے ایک تھانے کے برابر بھی نہیں ہیں اس لیے وہ انہیںسہل لے رہے ہیں یہاں ماہر فرض شناس اور فعال پولیس افسران کی کمی نہیں ہے ملک محمد رمضان شاہد ، مہار سعیداحمد رونگھہ، پروزیز خان احمدانی ، عبدالشکور قیصرانی ، قیصر عباس ، چوہدری فیاض الحق ،فیاض احمد خان بٹوانی ، حافظ غلام فریدجیسے سر پھرے افسران نے ضلع راجن پور میں اپنی تعیناتی کے دوران جرائم پیشہ عناصر کو نکیل ڈالی رکھی ان کی کارکردگی پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے ۔

مزیدخبریں