پاکستان میں گزشتہ دنوں کرک میں ایک ہندو مندر کو جلایا گیاتو ہندو برادری کی طرح مسلمان بھی اس پر دکھی اور غمزدہ نظر آئے۔حکومت فوری طور پر حرکت میں آئی۔ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔مندر کی تعمیر شروع کرا دی اور پاکستان کی عدلیہ نے انتہائی فعالیت کا مظاہرہ کیا۔ واقعہ کے روز چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے از خود نوٹس لیا۔ ایک کمیشن کی تشکیل کی گئی ،جس نے اگلے 36گھنٹے میں رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی جس کی سفارشات پر عمل شروع بھی ہو گیا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے اس حوالے سے جو کچھ کہا گیا وہ سنہری الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ رپورٹ میں ملزمان اور سرغنہ کی نشاندہی کر دی گئی تھی۔ جس میں جرم کا ارتکاب کرنیوالوں کو سخت سزائیں دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے تین فاضل جج حضرات نے اس معاملے کو بڑی مہارت اور غیر جانبداری سے دیکھا۔ جسٹس گلزار احمد کے ریمارکس ہر ذی شعور کے لیے اطمینان بخش اور ایسے واقعات کے مستقل سدِ باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مندر کو ہونے والے نقصان کی لاگت ملزموں سے پوری کی جائے۔ ایسا ٹرنڈسیٹ ہو جاتا ہے تو یقینا کوئی شخص وہ جتنے بھی عناد، بغض اور کینے سے بھرا ہو کسی بھی پراپرٹی کو نقصان پہنچانے سے قبل کئی بار سوچے گا۔
بھارت میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر حملے،ان میں توڑ پھوڑمعمول بن چکا ہے۔حتیٰ کہ کئی مساجد کو مندروں میں تبدیل کر دیا۔ گرائی جانے والی عبادت گاہوں کی کبھی مرمت نہیں ہوئی۔ بابری مسجد کو شہید کرنے اور اس کی جگہ مندر کی تعمیر کے فیصلے سے شدت پسندوں کے حوصلے مزید بڑھے ہیں، جس کی جھلک گزشتہ سال فروری میں مسلم کش کارروائیوں میں بھی نظر آئی۔مسلمانوں کا بے دریغ قتل کیا گیا۔ مساجد کو کہیں گرایا اور کہیں جلایا گیا۔ مسلمانوں کو ایسا ہی انصاف ملنا تھا جیسا بابری مسجد کے معاملے میں ملا۔
آج کے حالات میں ایک بات کا چرچا عام ہے کہ قانون کی نظر میں سب کے حقوق میں برابری ہونی چاہیے۔ یہ بات بھی عدل کے تقاضوں میں سے ہے۔ جناب رسول کریم ؐ نے یہی فرمایا ہے، بخاری شریف کی روایت کے مطابق قانون کی نظر میں سب کے برابر نہ ہونے کو معاشرے کی تباہی اور بربادی کا سبب بتایا گیا ہے۔ ایک مرتبہ یہودیوں کا ایک جوڑا بدکاری میں پکڑا گیا، یہودی مقدمہ لے کر حضورؐ کی عدالت میں آئے، جوڑا گرفتار تھا اور ان پر بدکاری کا جرم ثابت ہوگیا۔ آپؐ نے یہودیوں سے پوچھا، یہ بتاؤ کہ تمہارے ہاں اِس جرم کی سزا کیا ہے؟ تم یہودی ہو اور ایک شریعت کو مانتے ہو۔ تمہارے ہاں بھی ایک قانون اور ضابطہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں اس جرم کی سزا یہ ہے کہ دونوں کے منہ کالے کیے جائیں اور گدھے پر بٹھا کر پورے شہر کا چکر لگایا جائے اور ساتھ مار پٹائی بھی کی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ جو پہلے یہودی علماء میں سے تھے اور اب مسلمان ہو چکے تھے، حضورؐ نے ان سے پوچھا کہ کیا تورات میں اس جرم کی سزا یہی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ! یہ لوگ غلط بیانی کر رہے ہیں کیونکہ تورات میں یہ سزا نہیں ہے بلکہ یہ سزا انہوں نے خود گھڑ لی ہے، تورات میں رجم یعنی سنگسار کی سزا ہے۔ لیکن جب ان لوگوں نے اصرار کیا کہ تورات میں یہی لکھا ہوا ہے جو ہم نے بتایا ہے تو اس پر آپؐ نے فرمایا کہ تورات لے کر آؤ۔ چنانچہ مجلس میں تورات لائی گئی اور یہودی عالم سے کہا گیا کہ اس جرم کی سزا پڑھ کر سناؤ، اس نے اس سزا کے متعلق آیتیں اس طرح پڑھیں کہ درمیان کی آیت چھوڑ دی۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؐ نے اس کی خیانت پکڑ لی اور کہا ۔’’ اللہ کے دشمن یہ بھی تو پڑھ یہ کیا لکھا ہوا ہے۔‘‘ یہاں حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے بتایا کہ یا رسول اللہ! تورات میں اس جرم کی اصل سزا تو رجم ہی تھی لیکن جوں جوں زمانہ بدلا یہودی علماء نے اس سزا کے اطلاق میں خیانت کرنا شروع کر دی کہ جب کوئی غریب آدمی اس جرم میں پکڑا جاتا تو اسے سنگسار کر دیتے لیکن کوئی امیر اور صاحب ثروت آدمی پکڑا جاتا تو اس کو نرم سی سزا دے کر خانہ پری کر دیتے۔
آج ایسے انصاف کی جھلک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت کے عدالتی نظام میں نظر آتی ہے۔بھارت دنیا کو سیکولر بھی باور کراتا ہے۔عدالتیں چہرے دیکھ کر نہیں ٹھوس شہادتوں کی بنا پر فیصلے کرتی ہیں۔مدعی اور ملزم کا تعلق کسی بھی قبیلے، علاقے سے خواہ دشمن ہی کیوں نہ اس کا انصاف کے تقاضوں پر مطلق اثر نہیں پڑتا۔چند برس ہوتے ہیں،مقبوضہ کشمیر میں بہنے والے دریائوں کو باہم مربوط کرنے کا کیس بھارتی سپریم کورٹ میں گیا تو وہاں سے ایک غیر انسانی اور غیر فطری فیصلہ آیا حکومت کو دریا مربوط کرنے کی اجازت دے دی گئی جس کا مقصد پاکستان کو قدرتی راستوں سے آنے والے پانی سے محروم کرنا تھا۔حالیہ مہینوں بھی بھارتی سریم کورٹ بابری مسجد کے حوالے سے مسلمانوں سے تعصب پر مبنی فیصلہ دیا۔جس میں بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی گئی۔اس فیصلے سے تعصب اس لئے ظاہر ہوتا ہے کہ خود پانچ کے پانچ ججوں نے فیصلے ہی میں تحریر کیا کہ’’
سپریم کورٹ کے مطابق آرکیالوجیکل سروے انڈیا (اے ایس آئی) نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ متنازع زمین پر 12 ویں صدی عیسوی میں مندر تھا اور نہ ہی خاص طور پر یہ بتایا کہ بابری مسجد کے نیچے پائی جانے والی تعمیرات مندر کی تھیں۔لارجر بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے کہا کہ اے ایس آئی رپورٹ میں اس انتہائی اہم بات کا جواب نہیں دیا گیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی۔‘‘ قانون کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص کو بھی فیصلے میں عناد نظر آجاتا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بھارتی عدالتیں اقلیتوں کے مقابلے میں شدت پسند ہندوئوں اور حکومت کیساتھ کھڑی ہوجاتی ہیں۔اس حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ بھارت کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے۔