پیر‘  26؍ جمادی الاوّل 1442ھ‘  11؍ جنوری 2021ء 

پرائمری تک ملک میں یکساں نصاب نافذ کرنے کے احکامات 
دیر آید درست آید۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔ یکساں نصاب کے نفاذ کا فیصلہ بہت پہلے ہو جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ خیر جو ہوا سو ہوا۔ اب بھی بہت نقصان نہیں ہوا۔ اصل مواصلاتی انقلاب تو اب آیا ہے جب دنیا سمٹ کر انسان کی ہتھیلی میں سما گئی ہے۔ پہلے یہ سب کچھ ممکن نہیں لگتا تھا۔ اب ضرورت ہے ملک میں یکساں نصاب تعلیم کی تاکہ نجی ہو یا سرکاری تمام تعلیمی اداروں سے جو طلبہ نکلیں وہ برابری کے دعویدار ہوں۔ کہیں پہ بھی اردو میڈیم یا انگلش میڈیم کا تفاوت احساس کمتری یا احساس برتری پیدا نہ کرے۔ یہ گرچہ اتنی جلد ممکن نہیں مگر مرحلہ وار ہو سکتا ہے۔ اب پہلے مرحلے میں پرائمری تک یکساں نصاب تعلیم کے بہتر ثمرات سامنے آئیں گے۔ ایسا کرنے سے تمام بچوں کی یکساں تعلیمی نشوونما بھی ہو گی۔ ہمارے ملک میں چار طرح کے نظام تعلیم کام کر رہے ہیں۔ ایک سرکاری سکول کا ہے۔ دوسرا متوسط کلاس کے نجی انگلش میڈیم کا تیسرا اعلیٰ طبقے کے مکمل غیر ملکی نصاب پر مشتمل تعلیمی سسٹم اور چوتھا دینی مدارس کا۔ اب اس نظام کی وجہ سے پہلا نظام جو سرکاری سکولوں میں ہے جہاں سے کبھی بڑے بڑے لوگ پیدا ہوتے تھے۔ حکومتی عدم توجہ کی وجہ مکمل زبوں حالی کا شکار ہے۔ دوسرا آدھا تیتر آدھا بٹیر بن کر چل رہا ، تیسرا تو مکمل طور پر غیر ملکی نظریات کا آئینہ دار بن چکا ہے۔ دینی مدارس کا اپنا مزاج ہے۔اب کم از کم پرائمری کی سطح تک تو یہ تقسیم ختم ہو گی پورے ملک میں یکساں سوچ اور تعلیمی سرگرمیاں فروغ پائیں گی۔ اس طرح تعلیم کو تجارت بنانے والوں کا زور بھی کم ہو گا۔ 
٭٭٭٭٭
ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر ، مسافروں کا لاہور سٹیشن پر احتجاج ۔ شیشے توڑ دئیے 
عوام کیلئے سب سے سستی اورمحفوظ سفری سواری ٹرین ہے۔ اس لئے لوگوں کی بڑی تعداد بسوں ، کوچز اور بڑی لگژری گاڑیوں میں سفر کرنے کی بجائے ٹرین کے آرام دہ سفر کو پسند کرتی ہے۔ ٹرین کا سفر آج سے 40 ، 50 سال قبل تک واقعی بڑا رومان پرور ہوتا تھا۔ جس طرح گھڑی کی ٹک ٹک کانوں کو بھاتی تھی اسی طرح ریلوے انجن کی چھک چھک بھی ترنم آمیز لگتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اگر ریلوے پر حقیقی توجہ دی گئی ہوتی تو آج یہ پاکستان کا سب سے زیادہ منافع بخش محکمہ ہوتا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ٹرانسپورٹروں کے ساتھ ملی بھگت کی وجہ سے اس محکمہ کو آہستہ آہستہ تنزلی کی طرف دھکیلا گیا۔ آئے روز ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر وہ بھی گھنٹوں گھنٹوں نے مسافروں کو خاص طور پر ان مسافروں کو جو نزدیک کے علاقوں میں جانے والے ہوتے تھے آہستہ آہستہ ٹرانسپورٹروں کے ہتھے چڑھا دیا۔ یہی حال گڈز ٹرین کا یعنی مال گاڑیوں کا ہوا۔ یوں بس اور ٹرک مافیا نے مال برداری پر بھی قبضہ جما لیا۔ اس طرح ریلوے کا محکمہ مرد بیمار بن چکا ہے۔ شیخ رشید کے بعد اب ’’قرعہ فال بنام دیوانہ‘‘ اعظم سواتی کے نام یہ محکمہ الاٹ ہوا ہے۔ ان کو آئے چند دن ہی ہوئے ہیں دیکھتے ہیں وہ تبدیلی لاتے ہیں یا نہیں۔ البتہ ٹرینوں کی تاخیر سے مسافروں کا پارہ ضرور ہائی ہو رہا ہے جس کی وجہ سے لاہور سٹیشن پر توڑ پھوڑ ہوئی۔ اگر باقی سٹیشنوں پر بھی یہی کچھ ہوا تو محکمے کی مزید بدنامی ہو گی۔ اس لئے اعظم سواتی کم از کم اور کچھ نہیں تو ٹرینوں کی آمدورفت کو ہی بروقت بناکر داد سمیٹ سکتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭٭
نیب کیخلاف تاجر اٹھ کھڑے ہوں۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈی والا 
لو جی ابھی تک نیب کی سیاستدانوں سے خلاصی نہیں ہو رہی۔ آئے روز اسے سیاستدانوں اور ان کے اتحادیوں کے ہاتھوں دشنام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب سلیم مانڈی والا کی طرف سے ملک کے ایک اور طاقتور طبقے کو نیب کے خلاف صف آرا کیا جا رہا ہے۔ یہ طبقہ سیاستدانوں کی طرح بے بس نہیں۔ تاجر طبقہ صرف اور اپنے مفادات سے غرض رکھتا ہے۔انہیں صرف اور صرف اپنے منافع اور کاروبار میں ترقی کی خواہش ہوتی ہے۔ سیاستدان تو پھر بھی 5 سال بعد عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ تاجر اس جوابدہی سے بھی مبرا ہیں۔ تاجر اپنی طاقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس لئے آج تک کوئی حکومت ان پر بھرپور ہاتھ نہیں ڈال سکی۔ اب موجودہ حکومت کے دورمیں نیب والے ذرا ان کے بھی لین دین پر نظر ڈالنے لگے ہیں ، ان کے تجارتی اور کاروباری معاملات چیک کرنے لگے ہیں تو انہی کی برادری کے ایک رکن جو سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین بھی ہیں۔ فوری طور پر ان کے حق میں متحرک ہو گئے ہیں۔ ان کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ نیب کو پیغام دے رہے ہیں کہ جس پر چاہے ہاتھ ڈالو جس کو چاہے کٹہرے میں طلب کرو۔ بس تاجروں پر ہاتھ نہ ڈالو۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر سیاستدانوں نے کونسی نیب کی بھینسیں چرائی ہیں کہ ان کو ہی نیب کے سپرد کیا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
گیس کا بحران شدت اختیار کر گیا۔ صنعتوں کو فراہمی معطل 
یہ بات سب جانتے ہیں کہ ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر میں مسلسل اور بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے کمی آ رہی ہے۔ کیا مجال ہے جو کوئی بھی حکومت قدرتی گیس کے بعد اس کے متبادل کے بارے میں غور و فکر کرے اور توانائی کا ایسا ذریعہ تلاش کرے جو گیس ختم ہونے کے بعد متبادل ذریعہ توانائی ہو۔ یہ ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہم ہر کام اس وقت شروع کرتے ہیں جب وہ سر پر سوار ہوتا ہے۔ اگر پہلے سے متبادل توانائی کا بندوبست نہ ہوا تو غور کریں۔10 سال کے بعد ہمارا کیا حال ہو گا جب قدرتی گیس ختم ہونے لگے گی۔اگر ہم متبادل توانائی کے ذرائع تلاش نہیں کر پائے تو پھر گھروں میں چولہے ہی نہیں ہماری صنعتوں کے برائلر اور بھٹیاں بھی ٹھنڈی پڑ جائیں گی۔ اس لئے اس طرف فوری توجہ دی جائے جب تک گیس کے ، تیل کے نئے ذخائر نہیں ملتے ہمیں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا تقریباً مکمل شدہ منصوبہ فوری طور پر فعال کرنا چاہئے تاکہ ایران سے مناسب قیمت پر وافر مقدار میں گیس حاصل ہو سکے اور ہمارا ملک گیس کے فوری بحران سے بچ سکے۔ ایران منصوبہ میں تاخیر پر جرمانہ بھی نہیں لے رہا تو رکاوٹ کیوں ۔ امریکی پالیسیاں اپنی جگہ جب دنیا کے دیگر ممالک ایران سے لین دین کر رہے ہیں تو ہمیں گیس حاصل کرنے میں تکلیف کیوں۔


 ایران سے صرف گیس ہی نہیں اس پائپ لائن کی بدولت بجلی بھی وافر مقدار میں حاصل ہو سکتی ہے۔ حکومت اس بارے میں سنجیدگی سے سوچے اور جلد فیصلہ کرے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...