واشنگٹن (وقت رپورٹ+ این این آئی) کیپٹل ہل کی عمارت میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مستعفی نہ ہونے پر ڈیموکریٹس نے ان کے خلاف مواخذے کی تحریک تیارکر لی۔ ہاؤس کے اکثریتی وہپ جم کلائیو کہتے ہیں ایوان اسی ہفتے صدر ٹرمپ کے مواخذے پر رائے شماری کر سکتا ہے۔ ہاؤس کی سپیکر نینسی پیلوسی نے خبردار کیا کہ ڈیموکریٹس‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے مستعفی ہونے سے قبل کارروائی کا آغاز کر سکتے ہیں یا نائب صدر مائیک پنس 25 ویں ترمیم نافذ کر سکتے ہیں‘ جس کے ذریعے کابینہ صدر کو ان کے عہدے سے ہٹا سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پیلوسی کا کہنا تھا کہ وہ منحرف اور خطرناک ہیں‘ انہیں ضرور جانا چاہئے۔ مواخذے کی تحریک کا فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے گزشتہ ہفتے کیپٹل ہل میں احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کے بعد سامنے آیا۔ جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت 5 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ڈیموکریٹس کی جانب سے تیار کی گئی مواخذے کی تحریک میں کیپٹل ہل کی عمارت کو پہنچنے والے نقصان کا ذمہ دار ڈونلڈ ٹرمپ کو قرار دیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ ’’اس تمام میں‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا اور اس کے اداروں کی سکیورٹی کو شدید خطرے سے دوچار کیا۔ انہوں نے جمہوری نظام کی سالمیت‘ اقتدار کی پرامن منتقلی میں مداخلت اور حکومت کی تعاون برانچ کو متاثر کیا۔ دوسری جانب جوبائیڈن نے ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک سے متعلق کہا کہ ’’کانگریس نے جو فیصلہ کیا ہے انہیں کرنا چاہئے۔ امریکی ٹی وی چینل نے اعداد و شمار کی بنیاد پر بتایا ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان اور سینٹ کے 200 سے زیادہ ارکان ایسے ہیں جوکیپٹل ہل کی عمارت پر دھاوے کے تناظر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی معزولی کے حامی ہیں۔ یہ تمام ارکان ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر آزاد ارکان ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سلسلے میں امریکی آئین میں موجود25 ویں ترمیم کا سہارا لینے پر غور کیا جا رہا ہے جس کے مطابق اگر صدر اپنی ذمے داریاں انجام دینے سے قاصر ہو تو اس صورت میں اقتدار نائب صدرکو منتقل کیا جا سکتا ہے۔ واشنگٹن میں کیپٹل ہل کی عمارت پر دھاوے کے اثرات کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ اس طرح کی صورت حال میں ٹرمپ کو سبک دوش کرنے سے انقسام میں اضافہ ہونے کے علاوہ خود صدارتی ادارہ کمزور ہو گا۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کانگریس میں ڈیموکریٹک ارکان نے صدر ٹرمپ کو اقتدار سے فوری طور پر معزول کرنے کے لیے تحریک شروع کر دی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک مضمون میں کہا کہ یہ حملہ عامیانہ سیاسی ڈھونگ ہے ۔ امریکی میڈیا فارن پالیسی نے کہا کہ اس حملے سے عالمی سطح پر امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ جن ممالک کی خود امریکی رہنما مذمت کرتے تھے خود امریکہ ویسا ہی ملک بن چکا ہے۔ جرمن اخبار نے اسے امریکہ کے لیے ایک سیاہ دن کہا ہے جس سے جمہوریت اور اخلاقیات سے متعلق امریکی نظریات مزید کمزور ہوئے ہیں۔ برطانیہ کے دی گارجیئن نے لکھا کہ امریکہ کے سامنے اس وقت سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ جمہوریت کو کیسے بچایا جائے۔ فرانسیسی میڈیا نے کہا کہ اس حملے سے امریکہ نئے سیاسی بحران کا شکار ہو گیا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہو گا اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذاتی ٹوئٹر اکائونٹ کی مستقل بندش کو ان کے قریب حلقوں کی طرف سے کڑی تنقیدکا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر‘ صدر کے وکیل روڈی جولیانی‘ وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور ری پبلکن سینیٹر ٹیڈکروز سمیت کئی شخصیات نے ٹوئٹرکے اس فیلصے پر تنقید کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار رائے کے خلاف ’بائیں بازوںکا ہتھکنڈا‘ قرار دیا ہے۔ ادھر ٹوئٹر‘ فیس بک‘ اور انسٹا گرام کے علاوہ سنیپ چیٹ اور ٹوئچ نے بھی صدر ٹرمپ پر پابندی لگا دی ہے۔ ان تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا کہنا ہے کہ یہ فیصلے امریکا میں ممکنہ طور پر مزید پر تشدد واقعات کا راستہ روکنے کیلئے کئے گئے ہیں۔