سوشل میڈیاپر صوبائی وزیر ایکسائز حافظ ممتاز کی بارات کی سج دھج اور طمطراق وائر ل ہوا جو قابل دید تھا۔ دولہا کی گاڑی کو مسلح گارڈز نے گھیر رکھا تھا۔ 8-9سرکاری گاڑیوں کی ریوالونگ لائٹس کی چکا چوند نے سڑک کو عام ٹریفک کے لئے زیرو کیا ہوا تھا۔ اس بات کا مکمل اہتمام تھا کہ کوئی ایمرجنسی یا ایمبولینس گاڑی قافلے کے قریب سے گزر کر بد مزگی اور بد شگونی پیدا نہ کر سکے۔ مختلف لوگوں کا رد عمل سننے کو ملا جو تقریباً وہی تھا جو ہمارے ہاںپنجابی لوگ اکثر "لکھ دی۔۔"کہہ کر دیتے ہیں۔ گھوڑے ، سرکاری گاڑیاں اور پولیس کی افرادی قوت دیکھ کر لگتا تھا کہ دولہا کے رشتے داروں اور دوست احباب کو تقریب سے دور رکھنے کے لئے پولیس نے فول پروف سیکیورٹی پلان بنا رکھا ہے۔
مجھے یاد ہے نوے کی دہائی میں اکا دکا با اثر لوگ شادی کی تقریبات کے لئے ٹریفک کنسٹیبل کی فرمائش یہ کہہ کر کرتے تھے کہ عزت بن جائے گی۔ تو سینئر کمانڈ بڑی ناگواری سے انکار کر دیتی تھی کہ نجی تقریبات میں با وردی کنسٹیبل بھجوانے سے یونیفارم اور محکمہ کی توہین ہوتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ با اثر خاندانوں کو ایسے مواقع کیلئے ٹریفک کنسٹیبل دینا شروع کر دیا گیا۔ دیکھا دیکھی عام لوگوں نے بھی رابطے شروع کئے کہ کنسٹیبل دے دیں ان کی عزت کا مسئلہ ہے۔ نئی صدی کے آغاز میں کنسٹیبل کے ساتھ ایک ہیڈ کنسٹیبل کی فرمائش آنے لگی ، پھر دو، تین، چار ملازم کے ہمراہ ایک تھانیدار اس مقصد کے لئے بھجوایا جانے لگا۔ حالانکہ ٹریفک اہلکار کی ضرورت شادی گھر سے زیادہ باہر چوکوں پر ہوتی ہے۔ پھر با اثر لوگوں نے اس مقصد کے لئے بڑے افسروں کو اپروچ کرنا شروع کر دیا۔ تو ٹریفک انچارج کو حکم ملنے لگا کہ مہندی ، بارات اور ولیمہ پر ڈیوٹی لگا کر خود بھی چکر لگا لینا۔ اس رعائیت کو اپنا حق سمجھ لیا گیااور تاخیر یا کمی نفری پر افسران بالا کو شکایت کی جانے لگی۔ یوں محکمہ پولیس ڈھیل دے کر پیچھے ہٹتا گیا اور یہ رعائیت ایک ان لکھے قانون کی شکل اختیار کر گئی۔ اب نوبت حافظ ممتاز کی بارات کے پروٹوکول تک آپہنچی ہے۔اگر یہ نہ رکنے والا عمل جاری رہتا ہے تو توقع ہے کے مستقبل قریب میں DSPاور پھر DPOبارات کو پائلٹ کیا کریں گے اور متعلقہ DIGبارات کی استقبالی قطار میں دیکھا جائے گا۔سستی یا تاخیر کی صورت میں استحقاق مجروح ہونے کی شکایتیں بھی کی جائیں گی۔
پنجاب کے سابق آئی جی سردار محمد چوہدری لکھتے ہیں"آزادی سے 1958تک ہم پبلک سرونٹ یعنی خادم خلق تھے، پھر ہم گورنمنٹ سرونٹ بن گئے ، یعینی سرکار کے ملازم۔ جو کہے سرکار اس کے پابند، صحیح ہو یا غلط اور اب ہم ذاتی ملازم یعنی پرسنل سرونٹ بن کر رہ گئے ہیں۔ کیسی پرواز اور کیسی تنزلی۔ شرم کی ہیں شکلیں کیسی کیسی۔ غلامی ہے حاضر روش روش "۔
کہتے ہیں جس معاشرہ کی موت قریب ہو وہاں لوگ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے معزز بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ عمل اور کردار سے معزز بننا ایک فرسودہ خیال سمجھا جاتا ہے۔ جعلی اور سطحی طمطراق کے وٹامنز سے معززیت کے کھوکھلے وجود کو قائم رکھا جاتا ہے۔ چوہدری صاحب کے بقول بے مہار اور بے لگام شخصی اختیار ہر احمق کا خواب ہوتا ہے۔ جو اس کی آنکھ کھلتے ہی چکنا چور ہو جاتا ہے۔ دانا اور دانشمند دستوری اور قانونی حکمت سے حکومت کرتا ہے۔ احمق اختیار کے ڈنڈے سے اور پاگل پولیس کے ذریعے۔
یہ حقیقت ہے کہ چاپلوسی اس دور کا خیال اور ضرورت ہے۔ جس نے اس کا ادراک بر وقت کر لیا وہ کامیاب ٹھہرا۔ بد قسمتی یہ ہے کہ چھوٹی سی مصلحت یا فائدے کے لئے اپنی انائیں اور وفائیں سیاسی لوگوں کے قدموں میں نچھاور کرنے سے محکمہ کا وقار نہیں رہتا نیز جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف لڑنے کے لئے تیار کئے گئے گھوڑے(ماتحت) بھی آخر کارلڑنے کی بجائے شادیوں میں ناچنے میں ہی اپنی عافیت اور فخر سمجھنے لگتے ہیںکیونکہ سیاسی مداخلت آکاس بیل کی طرح ہے جو محکمہ کی ترو تازگی ، شادابی اور وقار کو چن چن کر اجاڑ دیتی ہے۔پولیس پہلے ہی سیاسی جلسوں اور احتجاجی جلوسوں کے علاوہ محرم، عیدیں، عید میلاد، نماز تراویح، مختلف پروٹوکول، کرونا اور ڈینگی ڈیوٹی، ناکے اور گشت ڈیوٹی اور آئے روز وقوع پذیز ہونے والی وارداتوںکے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے پولیس افسران کو تھانوں میں بیٹھنا نصیب تک نہیں ہوتا اور پبلک کو شکایت رہتی ہے کہ پولیس افسر تھانوں میں ملتے نہیں ہیں۔ اب شادیوں پر پروٹوکول کی لت لگا کر پولیس اپنے گلے میں نئی مصیبت ڈال لے گی۔
چلو خیر کوئی بات نہیں حافظ ممتاز نے بھی اگر گرم تندور میں پراٹھا لگا لیا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ کیونکہ اس کی شادی اور وزارت بار بار آنے والی چیز تو ہے نہیں۔ ایک قصہ یاد کرتے ہیں جس کو حکومتی یا محکمہ پولیس کے بڑوں سے لنک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کہتے ہیںکہ جب الہ دین فوت ہوا تو اس کا چراغ مختلف جاں نشینوں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا آخری جاں نشین کے ہاتھ لگا جو نالائق اور نا اہل تھا۔ چراغ کی اہمیت سے کما حقہ آگاہ نہیں تھا۔ اس نے چراغ کو پہلی دفعہ رگڑا تو فضا میں ایک زور دار گونج اور گرج کے ساتھ دھواں اٹھا اور آناً فاناً ایک جاہ جلال والا جن سامنے نمودار ہو ااور بولا"حکم میرے آقا" جاں نشین چونکہ اتنے ظرف والا نہیں تھا اس نے فوراً کہا شلوار میں ازار بند ڈال دو۔ جن نے تعمیل کی اور غائب ہو گیا۔ پھر رگڑا تو اسی گھن گرج اور دھویں کے شور میں وہ ہیبت والا جن نمودار ہو کر بولا"حکم میرے آقا"جاں نشین الہ دین نے کہا کہ ہمسایوں سے پتی مانگ کر لائو اور چائے کی پیالی بنائو۔ تعمیل ہوئی اور جن دوبارہ غائب ہو گیا۔ بار بار چراغ کو رگڑنے سے جن اسی رعب اور ہیبت سے نمودار ہوتا رہا ۔ مگر آہستہ آہستہ شدت کم ہوتی گئی۔ ایک دن چراغ رگڑنے پر جب جن حاضر ہوا تو آقا نے جیب سے ایک خط نکالا اور کہا کہ وہ محلے کی ایک لڑکی سے عشق کرتا ہے ۔ لہذا یہ خط اسے پہنچا دیا جائے اور واپس جواب بھی لیتا آئے۔ جن نے پہلے تو دبی آواز میں کہا کہ" حضور میں جن ہوں کوئی ایسا ویسا نہیں"مگر اس نے تعمیل کی ۔ یہ سلسلہ جاری ہو گیا۔ آقا نے اپنے دوستوں کو جن کی کاروائی بڑے فخر سے بتائی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے خط بھی لے جایا کرے اور واپس جواب لے آئے اس کا کیا جاتا ہے۔ لہذا اب پیغام رسانی کا یہ کام بھی جن کی ڈیوٹی میں شامل ہو گیا۔ آہستہ آہستہ اس جن میں جن والی خصوصیات دم توڑنا شروع ہو گئیں ۔ اب چراغ رگڑنے سے گرج اور دھوئیں کے مرغولوں کی بجائے سگریٹ جتنا دھواں نکلنے لگا ۔ جن کی آوازمیں بھی کڑک اور رعب ختم ہو گیا اور اس نے" حکم میرے آقا"کہنے کی بجائے" جی صاحب جی" کہنا شروع کر دیا۔اب جن نے غائب ہونا بھی چھوڑ دیا تھا۔ سامنے پلاٹ میں نڈھال سا پڑا رہتا تھا۔ ایک دن جن نے اپنے آقا سے گزارش کی کہ حضور آپ کے حالات بھی کوئی اتنے اچھے نہیں ہیں۔ میں بھی کمزور ہو گیا ہوں لہذا مجھے آزاد کر دیا جائے۔ اس کو آزاد کر دیا گیا۔ وہ جن ایک ڈرائیور ہوٹل میں ملازمت کرنے لگا۔ سارا دن وہ یہ جملے سنتا " اوئے چھوٹے" پانی لائو ، میز صاف کرو، چائے لائو، گرم روٹی لائو، کندھے دبائووغیرہ وغیرہ۔ فراغت کے لمحوں میں جب وہ جن اپنے ساتھی ملازموں کے ساتھ گپ شپ کرتا تو ٹھنڈی آہ بھر کر کہتا " میں ایک جاہ جلال والاجن تھا مگر میرے بڑوں نے مجھے چھوٹے چھوٹے کاموں میں الجھا کر 'چھوٹا' بنا دیا اورمجھے میرے منصب سے گرا دیا۔